اسلام آباد : سپریم کورٹ نے جعلی لائسنس ہولڈر پائلٹس کیخلاف کارروائی فوری مکمل کرنے کا حکم دیتے ہوئے جعلی لائسنس دینے والے افسران کیخلاف فوجداری مقدمات درج کرانے کا حکم دے دیا۔
تفصیلات کے مطابق سپریم کورٹ میں چیف جسٹس گلزار احمد کی سربراہی میں 5رکنی بینچ نے کورونا از خود نوٹس کیس کی سماعت کی، سماعت کا آغاز ہوا تو چیف جسٹس نے کمرہ عدالت میں ہدایت کی سماجی فاصلہ برقراررکھاجائے۔
دوران سماعت چیف جسٹس نے کہا این ڈی ایم اے نے ابھی تک اہم دستاویز جمع نہیں کرائیں، الحفیظ کمپنی کی مشینری کوامپورٹ کی اجازت کی دستاویز کہاں ہیں، تین بار حکم دینے کے باوجود دستاویز کیوں نہیں دیئے گئے۔
جسٹس اعجازالاحسن نے استفسار کیا جہازچارٹرڈ کرنے اور ادائیگیوں کی تفصیلات کہاں ہیں؟ ڈائریکٹرایڈمن نے بتایا کہ الحفیظ کمپنی کی مشینری این ڈی ایم اےنےامپورٹ نہیں کی، جس پر چیف جسٹس نے کہا ابھی تک الحفیظ کمپنی کا مالک سامنے نہیں آسکا، اصل مسئلہ کسٹم اور دیگر قوانین پر عمل نہ ہونا ہے۔
جسٹس اعجازالاحسن نے ریمارکس میں کہا دستاویز کے مطابق مشینری کی قیمت ظاہرنہیں کی گئی،چیف جسٹس نے مزید کہا کہ چارٹرڈ کیلئے 1 کروڑ سات لاکھ سے زائد نقد رقم ادا کی گئی، چارٹرمعاہدے کے مطابق ادائیگی کیسے کر سکتے ہیں، کراچی میں اتنا کیش کوئی کیسے دے سکتا ہے، لگتا ہے ہمارے ساتھ کسی نے بہت ہوشیاری اور چالاکی کی ہے۔
لگتا ہے این ڈی ایم اےکو ہی ختم کرنا پڑے گا، چیف جسٹس
چیف جسٹس نے استفسار کیا ویکسین اورادویات کی امپورٹ کی دستاویزکہاں ہیں،اٹارنی جنرل نے بتایا کہ متعلقہ حکام کو عدالت کو مطمئن کرنا ہوگا، جس پر جسٹس گلزار احمد نے کہا اٹارنی جنرل صاحب کیا تماشہ چل رہا ہے، لگتا ہے این ڈی ایم اےکو ہی ختم کرنا پڑے گا، این ڈی ایم اے کو ختم کرنے کے لئے سفارش کردیں، چیئرمین این ڈی ایم اے وضاحت کرنے میں ناکام رہے ہیں۔
جسٹس نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا شایدبہت کچھ غلط ہواجس پرپردہ ڈالنےکی کوشش کی جارہی ہے، کیوں نہ چیئرمین این ڈی ایم اے کو توہین عدالت نوٹس جاری کردیں، کسی کو ایک روپےکابھی فائدہ نہیں پہنچنے دیں گے۔
جسٹس گلزار احمد کا کہنا تھا کہ ملک کےاداروں کوشفاف اندازمیں چلناچاہیے، نقدادائیگی اس کمپنی کوکی گئی جس کا کوئی تعلق ہی نہیں تھا، لگتاہےچین میں پاکستانی سفارتخانےنےچین کونقدادائیگی کی۔
جسٹس اعجازالاحسن نے ریمارکس دیئے کہ این ڈی ایم اے کو فری ہینڈ،فنڈزدیے گئے تاکہ وبا سے لڑا جاسکے، این ڈی ایم اےعدالت اور عوام کو جوابدہ ہے، کورونا ، سیلاب،ٹڈی دل،سب کچھ این ڈی ایم اے کو سونپا گیا۔
چیف جسٹس نے مزید کہا کہ این ڈی ایم اےٹڈی دل کےلئےجہازاورمشینری منگوارہا ہے، صرف زبانی نہیں دستاویز سے شفافیت دکھانی پڑے گی، کچھ سمجھ نہیں آرہاکہ اربوں روپے کیسے خرچ کیا جارہا ہے، این ڈی ایم اے کے ممبرایڈمن کوخودکچھ معلوم نہیں۔
جعلی ادویات بنانے اور فروخت کرنیوالوں کو سزائے موت ہونی چاہیے، چیف جسٹس
کورونا ازخود نوٹس کیس میں چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ جعلی ادویات بنانے اور فروخت کرنیوالوں کو سزائے موت ہونی چاہیے، پاکستان میں زیادہ سے زیادہ دو ہفتے کی سزا ہوتی ہے اور جعلی دوائی بیچنے والے کو زیادہ سے زیادہ 10 ہزار روپے جرمانہ ہوتا ہے۔
جسٹس اعجازالاحسن نے مکالمے میں کہا چیئرمین ڈریپ صاحب آپ اپنا کام کرہی نہیں رہے۔
سپریم کورٹ نے ڈریپ کی رپورٹ غیر تسلی بخش قرار دے دی
سپریم کورٹ نے ڈریپ کی رپورٹ غیر تسلی بخش قرار دے دی اور ڈریپ سے امپورٹ کی گئی ادویات سے متعلق تمام تفصیلات طلب کرلیں۔
چیف جسٹس نے ایڈیشنل سیکریٹری صحت کی سرزنش کرتے ہوئے کہا سیکریٹری صاحب آپ صرف بیان بازی ہی کرتے ہیں ، آپ کیا کر رہے ہیں خط لکھنے سے مسائل حل نہیں ہوتے، جسٹس اعجاز الاحسن نے ریمارکس میں کہنا تھا کہ آپ نے سارا ملبہ صوبوں پرڈال دیا، صرف خط ہی لکھنےہیں تو وزارت صحت کا کیا فائدہ۔
جسٹس گلزار احمد نے ریمارکس دیئے کہ ہمیں عملی کام چاہیے بابووں والا کام نہیں، آپ کو معلوم ہے کہ بابو کون ہوتا ہے، جس پر ایڈیشنل سیکریٹری صحت نے کہا بابو کا لفظ افسران کیلئے استعمال ہوتا ہے۔
اٹارنی جنرل نے این ڈی ایم اے کے جمع شدہ جواب واپس لینے کی استدعا کرتے ہوئے کہا دستاویز سمیت جامع جواب جمع کرائیں ، جس پر سپریم کورٹ نے ایس ای سی پی سے الحفیظ کمپنی کی تمام تفصیلات طلب کرلیں اور این ڈی ایم اے کا جواب ممبر ایڈمن کو واپس دے دیا جبکہ سپریم کورٹ نے تمام تفصیلات پر مبنی جامع جواب طلب کرلیا۔
چیف جسٹس نے استفسار کیا ڈریپ نے نان رجسٹرڈ ادویات کی در امد کی اجازت کیسے دی؟ کس اسپتال نے مشینری اور ادویات مانگی تھیں اور بھارت سے آنے والی ادویات کون سی تھیں؟ جس پر چیئرمین ڈریپ نے بتایا کہ ایمر جنسی میں ادویات،مشینری در آمد کی اجازت دے سکتے ہیں، بھارت سے آنے والی ادویات کی امپورٹ پر پابندی لگی تھی، بھارت سے خام مال دوبارہ آرہا ہے۔
چیف جسٹس نے مزید استفسار کیا بھارت سے انے والی ادویات غیر قانونی تھی،اس کی حیثیت کیاتھی؟ اٹارنی جنرل نے اعتراف کیا کہ کابینہ نے چند ادویات کی اجازت دی مگرامپورٹ زیادہ ہوئیں، شہزاداکبر نے رپورٹ جمع کرائی کہ اجازت کا غلط استعمال کیا گیا۔
چیف جسٹس پاکستان نے کہا ڈریپ کی ملی بھگت کے بغیر کوئی بھی دوا نہیں آسکتی، ڈریپ کی ناک کے نیچے جعلی ادویات مل رہی ہیں، جسٹس اعجاز الاحسن کا کہنا تھا کہ دورمحکمہ صحت کا کام صرف خط لکھنا نہیں، آ ئندہ سماعت پرسیکریٹری صحت دواؤں کی قیمت کی تفصیلی رپورٹ لے کرپیش ہوں۔
لگژری گاڑیوں کی خریداری
کورونا ازخود نوٹس کیس میں چیف جسٹس نے سوال کیا حکومت پنجاب کتنی لگژری گاڑیاں خریدرہی ہے، حکومت پنجاب نےنہیں بتایا کہ 50کروڑ کی کونسی گاڑیاں درآمد کی جائیں گی، ایمبولینس ہے، کچرے کی گاڑی ہے یا پراڈو، کچھ معلوم نہیں ، جس پر ایڈووکیٹ جنرل پنجاب نے بتایا کہ پنجاب حکومت گاڑیاں درآمدنہیں کر رہی۔
جسٹس اعجازالاحسن نے ریمارکس دیئے کہ کوروناکی وجہ سےترقیاتی فنڈتوجاری نہیں کر رہے، پھریہ گاڑیاں کیسےخریدی جارہی ہیں؟ جبکہ چیف جسٹس سپریم کورٹ نے بھی استفسار کیا گزشتہ سال کتنی گاڑیاں خریدی گئیں۔
ایڈووکیٹ جنرل نے جواب میں کہا کہ گزشتہ سال کی معلومات ابھی نہیں ہیں، عدالت کا کہنا تھا کہ پہلےبھی بی ایم ڈبلیو،ڈبل کیبن پراڈو خریدنے پر سپریم کورٹ نے حکم جاری کیاتھا، اب پنجاب حکومت دوبارہ 50کروڑکی گاڑیاں خریدرہی ہے۔
چیف جسٹس سپریم کورٹ نے ریمارکس دیئے کہ ڈونرزسےقرض لےگاڑیاں خریدی جاتی ہیں، افسران کہتےہیں کھیتوں میں جاناہےاس لیے بڑی گاڑی چاہیے۔
پائلٹس کے جعلی لائسنسز
اسلام آباد:سپریم کورٹ میں کوروناازخودنوٹس کیس میں پائلٹس کے جعلی لائسنسز پر چیف جسٹس نے کہا پوری دنیا میں جعلی لائسنس کا ہمارا اسکینڈل مشہورہا، پاکستان کے بہت سےاوراسکینڈل پہلے سے مشہور تھے۔
جسٹس گلزار احمد نے استفسار کیا کیاسول ایوی ایشن اتھارٹی کےکسی افسر کے خلاف کارروائی ہوئی؟ عملی کام کیاتوجواب دیں،تقریر نہیں سنیں گے، پاکستان میں تمام برائیاں ایئرپورٹ سے آتی ہیں، لگتاہے یہ آج آپ پر انکشاف ہو رہا ہے ، جس پر ڈی جی سول ایوی ایشن نے بتایا کہ سول ایوی ایشن میں اصلاحات لا رہے ہیں۔
چیف جسٹس نے ڈی جی ایوی ایشن سےمکالمے میں کہا ہمیں کہیں بھی اصلاحات نظر نہیں آرہیں، آپ اس عہدےکےاہل نہیں، سی اے اے چلانا آپ کے بس کی بات نہیں، پائلٹ کولائسنس دیتے وقت سی اے اے کےتمام کمپیوٹر بند ہوگئے، ہمارے لیے شرم کا مقام ہے کہ پائلٹس کےلائسنس جعلی نکلے، سی اے اے نے عوام کی زندگیاں داؤپر لگا دیں اور کسی افسرکےخلاف کارروائی نہیں کی، بھیانک جرم کرنے اور کرانے والے آرام سے تنخواہیں لے رہے ہیں۔
جسٹس گلزار احمد نے کہا بدنامی میں پاکستان زمین کی تہہ تک پہنچ چکا ہے، پاکستان کو دنیا کا کرپٹ ترین ملک کہا جاتا ہے، سی اے اے کے بعض جاری لائسنس سمجھ سے باہر ہیں ، ڈی جی سی اے اے نے جواب میں بتایا کہ جس فرانزک آڈٹ کےمطابق 262 لائسنس جعلی ہیں، 28 لائسنس منسوخ کرکے189 کےخلاف کارروائی شروع کردی ہے ، 2010 سے 2018 تک تھرڈ پارٹی فرانزک آڈٹ کرایا گیا۔
جسٹس اعجازالاحسن نے کہا 2018میں عدالت نےلائسنس چیک کرنےکاحکم دیاتھا، چیف جسٹس سپریم کورٹ نے ڈی جی سے مکالمے میں کہا کیا مضبوط آدمی ہیں، ڈی جی نے جواب دیا انشااللہ میں مضبوط آدمی ہیں، جس پر چیف جسٹس سپریم کورٹ کا کہنا تھا کہ آپ کا انشااللہ عملی طور پر نظر نہیں آرہا، سی اے اے کا تمام عملہ سمجھوتہ کرچکاہے، جعلی لائسنس دینے والے تمام افسران کوبرطرف کریں۔
چیف جسٹس نے کہا سی اےاےکےتمام افسران کوان کاحصہ پہنچ رہاہوتاہے، جعلی لائسنس پر دستخط کرنے والے جیل جائیں گے، حکومت کی منظوری سے معاملہ ایف آئی اے کوبھجوائیں گے۔
کورونا ازخود نوٹس کیس میں ایم ڈی پی آئی اے ارشد محمود ملک عدالت میں پیش ہوئے ، ارشد ملک نے عدالت کو بتایا کہ جعلی ڈگری والے 750 ملازمین کو نکالا ہے، بھرتیوں میں ملوث افراد کو بھی نکالا گیا ہے، لوگوں نے پی آئی اے پر سفر کرنا چھوڑ دیا ہے، پی آئی اے میں 141 جعلی لائسنس والے پائلٹس نکلے۔
جسٹس اعجازالاحسن نے سوال کیا پی آئی اے کو 450 پائلٹس کی ضرورت ہی کیوں ہے، جس پر سی ای او ارشد ملک نے کہا جعلی ڈگریوں والے 15 پائلٹس کو برطرف کیا گیا، پائلٹس کو صرف معطل کر سکتا ہوں، برطرف سی اے اے کرتا ہے۔
چیف جسٹس پاکستان نے استفسار کیا کیا آپ کو پائلٹس برطرف کرنے کا اختیار ہے، ارشد ملک نے کہا بدقسمتی سے قانون نے میرے ہاتھ باندھے ہوئے ہیں، پی آئی اے کا 50 فیصد عملہ نکال رہے ہیں تو چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ یہ مسئلے کا حل نہیں کہ 500 ملازم نکال کر اتنے ہی بھرتی کرلیں، پی آئی اے کا کوئی اثاثہ بھی فروخت نہیں کر سکیں گے۔
جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا روزویلٹ ہوٹل سمیت کوئی اثاثہ بغیراجازت فروخت نہیں ہوسکتا، چیف جسٹس نے ریمارکس میں کہا گلشن جناح میں پی آئی اے پلاٹ پر آج بھی شادی ہال بنا ہوا ہے، شادی ہال نہ گرانے پر توہین عدالت کی کارروائی کریں گے۔
جسٹس عمر عطا بندیال نے ریمارکس دیئے کہ کمپیوٹرتک غیرقانونی رسائی پرکیاکارروائی ہوئی، مئی میں حادثہ ہوااب تک صرف چٹھی بازی ہورہی ہے، کراچی حادثے کے پائلٹ کولائسنس1990میں جاری ہواتھا، 2010سے پہلےجاری لائسنس کا کیا کریں گے، اب فوری طور پر عملی اقدامات کا وقت ہے۔ جہازکاپائلٹ 300 بندوں کی ذمہ داری چھوڑکرکوروناپرگفتگوکررہاتھا۔
چیف جسٹس نے ڈی جی سی اےاے سے استفسار کیا آپ کو رات کو نیند کیسے آجاتی ہے ، آپ کو تو کام کام اور صرف کام کرکے نتائج دینے چاہئیں، 1947سےآج تک جاری تمام لائسنس چیک کریں۔
جسٹس اعجازالاحسن نے سوال کیا پاکستان کے علاوہ کتنے ممالک میں جعلی لائسنس نکلے؟ سیاسی مداخلت ہےپائلٹ اتنےبااثرہیں کہ ایکشن نہیں ہورہا، پوری دنیا میں سول ایوی ایشن نے ملک کو بدنام کیا،جسٹس اعجازالاحسن
ڈی جی سی اےاے نے بتایا کہ کمپیوٹرائزڈڈیٹا2010میں شروع ہوا،وہاں سے آڈٹ ہوا، پی آئی اے کے 31جہازاور 450 پائلٹ ہیں اور دنیا کی 10ایئر لائنزمیں 176 پائلٹ کام کررہے ہیں۔
سپریم کورٹ نے کہا سول ایوی ایشن کے کمپیوٹر محفوظ نہیں تو سول ایوی ایشن اتھارٹی میں ہونے والا کوئی کام محفوظ نہیں رہا۔
سپریم کورٹ نے جعلی لائسنس ہولڈر پائلٹس کیخلاف کارروائی فوری مکمل کرنے کا حکم دیتے ہوئے جعلی لائسنس دینے والےافسران کیخلاف فوجداری مقدمات درج کرانے کا حکم دے دیا۔
سپریم کورٹ کا سول ایوی ایشن اور پی آئی اے کی رپورٹس پر عدم اطمینان کا اظہار کرتے ہوئے 2 ہفتے میں کارروائی پر مبنی رپورٹ پیش کرنے کا حکم دیا۔