اسلام آباد : سپریم کورٹ آف پاکستان نے جعلی بینک اکاؤنٹس کیس میں سابق صدر آصف علی زرداری اور ان کی ہمشیرہ فریال تالپور کو ہفتےکے آخرتک جواب جمع کرانے کی مہلت دے دی۔
تفصیلات کے مطابق سپریم کورٹ میں چیف جسٹس میاں ثاقب نثار کی سربراہی میں دو رکنی بینچ نے جعلی بینک اکاؤنٹس کیس کی سماعت کی
جے آئی ٹی سربراہ احسان صادق سمیت دیگر جے آئی آرکان سپریم کورٹ میں موجود تھے جبکہ ایڈووکیٹ جنرل سندھ سلمان ابوطالب، پیپلزپارٹی کے رہنما راجہ پرویز اشرف، لطیف کھوسہ، فاروق ایچ نائیک، فرحت اللہ بابر اور دیگر بھی عدالت میں موجود تھے۔
عدالت عظمیٰ میں سماعت کے دوران چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ وفاقی حکومت نے ان سب کے نام ای سی ایل میں کیوں ڈالے، آپ کے پاس کیا جواز ہے۔
چیف جسٹس میاں ثاقب نثار نے کہا کہ 172افراد کے نام ای سی ایل میں ڈالنے کا کیا جواز ہے، یہ اقدام شخصی آزادیوں کے منافی ہے۔
چیف جسٹس نے کہا کہ وزیراعلیٰ سندھ کا نام بھی ای سی ایل میں ڈال دیا گیا، حکومت مراد علی شاہ کا نام ای سی ایل میں ڈالنے کا کیا جواب دے گی۔
سپریم کورٹ نےای سی ایل میں نام ڈالنے کے حوالے سے وزیرداخلہ شہریار خان آفریدی سے جواب طلب کرلیا۔ چیف جسٹس نے کہا کہ کیا ای سی ایل میں نام ڈالنا اتنی معمولی بات ہے۔
فاروق ایچ نائیک نے کیس میں پیش ہونے سے معذرت کرلی، عدالت عظمیٰ نے فاروق ایچ نائیک کی استدعا مسترد کر دی۔
وکیل لطیف کھوسہ نے کہا کہ فاروق ایچ نائیک مقدمے میں آصف زرداری کے وکیل تھے، جےآئی ٹی نےفاروق ایچ نائیک کوبھی ملزم بنا دیا۔
وکیل نے بتایا کہ جےآئی ٹی کی بنیاد پرفاروق نائیک نے آصف علی زرداری اورفریال تالپور کی وکالت سے معذرت کی۔
چیف جسٹس نے کہا کہ فاروق ایچ نائیک کو پیش ہونے سے کون روک سکتا ہے؟ وکیل شاہد حامد نے عدالت کو بتایا کہ انورمجیداورعبد الغنی مجید کا جواب آچکا ہے۔
جسٹس اعجازالاحسن نے ریمارکس دیے کہ دونوں کی جانب سے مفصل جواب نہیں آیا، تمام دستاویزات ریکارڈ پرموجود ہیں۔
وکیل ایف آئی اے نے بتایا کہ اومنی گروپ تمام متعلقہ دستاویزات مانگ رہا ہے، چیف جسٹس نے کہا کہ لگتا ہےانورمجید ،عبدالغنی کا جیل میں رہنے کا دل کرتا ہے، بتادیں کونسی دستاویزات چاہئیں۔
ایف آئی اے کے وکیل نے کہا کہ جودستاویزات درکارہیں وہ فراہم کردی ہیں، آصف علی زرداری کی جواب داخل کرانے کے لیے مزید مہلت کی استدعا کی گئی۔
چیف جسٹس نے کہا کہ کتنا وقت چاہیے، چار دن کافی ہیں، فاروق ایچ نائیک نے جواب دیا کہ 4 روزمیں جواب داخل کرا دیں گے۔
سپریم کورٹ نے ریمارکس دیے کہ ابھی صرف جے آئی ٹی رپورٹ آئی، وزرانے تبصرے شروع کردیے، چیف جسٹس نے کہا کہ 172افراد کے نام ای سی ایل میں ڈال دیے یہ کوئی چھوٹی بات ہے؟۔
چیف جسٹس نے کہا کہ جےآئی ٹی رپورٹ کے مندرجات کیسے لیک ہوگئی، سربراہ جے آئی ٹی نے کہا کہ ہمارے سیکریٹریٹ سے کوئی چیزلیک نہیں ہوئی، میڈیا نےسنی سنائی باتوں پرخبریں چلائیں۔
سابق صدر آصف علی زرداری کی جانب سے جواب داخل کرانے کے لیے مزید ایک ہفتے کی مہلت کی استدعا کی گئی جو عدالت نے منظور کرلی۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ کیا مراد علی شاہ سندھ کی وزارت اعلیٰ چھوڑ کربھاگ جائیں گے، کیا مراد علی شاہ کا نام اس مؤقف پرڈالا گیا۔
وکیل جے آئی ٹی نے بتایا کہ جےآئی ٹی نے کسی منتخب نمائندے کی نااہلی کی بات نہیں کی، کسی کی نااہلی کی سفارش کرنا جے آئی ٹی کا مینڈینٹ نہیں تھا۔
انہوں نے کہا کہ جےآئی ٹی نے کسی کی گرفتاری کی سفارش نہیں کی، گرفتاری کرنا متعلقہ اداروں کی ذمہ داری ہے۔
چیف جسٹس ثاقب نثار نے کہا کہ مرادعلی شاہ صوبے کے وزیراعلیٰ ہیں، ان کا احترام ہونا چاہیے، جےآئی ٹی کی سفارش تھی توعدالتی حکم کا انتظارکرلیتے۔
وکیل شاہد حامد نے بتایا کہ وفاقی کابینہ نے سوچے سمجھے بغیرنام ای سی ایل میں ڈال دیے۔
اٹارنی جنرل نے عدالت کو بتایا کہ 172افراد کےنام ای سی ایل میں ڈالنے کے لیے جے آئی ٹی نے رجوع کیا، 26 دسمبرکوجے آئی ٹی سربراہ احسان صادق نے حکومت کوخط لکھا۔
انہوں نے کہا کہ خط کی بنیاد پرنام ای سی ایل میں ڈالے گئے، چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ احسان صادق کیا ہم نے کہا تھا نام ای سی ایل میں ڈلوائیں؟، ہم نے تونہیں کہا، یہ سب بحران آپ کی وجہ سے پیدا ہوا۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ خط میں یہ تاثردیا ای سی ایل میں نام عدالتی حکم پرڈالے جا رہے ہیں، جسٹس اعجازالاحسن نے کہا کہ جےآئی ٹی سربراہ نے خط لکھا توکابینہ نے وجوہات کا جائزہ لیا تھا؟۔
اٹارنی جنرل نے کہا کہ وفاقی کابینہ نے خط میں وجوہات کا جائزہ لیا، وجوہات کے جائزے کے بعد نام ای سی ایل میں ڈالے گئے، جے آئی ٹی سربراہ نے کہا کہ ملزمان سے متعلق حکومت کوآگاہ کرنا اخلاقی فرض تھا۔
چیف جسٹس نے کہا کہ نام ای سی ایل میں شامل کرنے کی تفصیل کس نے دی تھی، جےآئی ٹی کا کام تحقیقات کرکے رپورٹ دینا تھا۔
انہوں نے استفسار کیا کہ کیا نام ای سی ایل میں شامل کرنےکا اختیارجے آئی ٹی کوتھا؟ جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ جےآئی ٹی نے7 ہزار500 لوگوں کا جائزہ لیا۔
سربراہ جےآئی ٹی احسان صادق نے کہا کہ پہلے بھی لوگ ملک سے فرارہوتے رہے ہیں، تشویش تھی یہ لوگ ملک سے فرارنہ ہوجائیں، نام ای سی ایل میں ڈالنے کے لیے کردارکو دیکھ کرسفارش کی۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ وزیراعلیٰ سندھ کے بارے میں جےآئی ٹی نے فائنڈنگ دی جس پر جے آئی سربراہ نے بتایا کہ ٹھٹھہ شوگرمل11 کروڑ20 لاکھ میں فروخت کی گئی۔
چیف جسٹس ثاقب نثار نے استفسار کیا کہ کیا یہ حکومت کی شوگرمل تھی، جے آئی ٹی سربراہ نے جواب دیا کہ شوگرمل بینک سے قرض لے کرخریدی گئی۔
چیف جسٹس آف پاکستان نے کہا کہ جے آئی ٹی رپورٹ میں عدالت میں کوئی حتمی فائنڈنگ نہیں دی گئی، وکیل جے آئی ٹی نے بتایا کہ جےآئی ٹی نے نیک نیتی سے نام ای سی ایل میں شامل کرائے۔
ایڈووکیٹ جنرل سندھ نے کہا کہ مرادعلی شاہ کوعلم نہیں ان کے خلاف تحقیقات ہورہی ہیں، وزیراعلیٰ سندھ کو بلایا تک نہیں گیا۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ جمہوریت آئین کا بنیادی فیچرہے، جمہوریت کوڈی ریل نہیں ہونے دیں گے، گورنرراج ایسے نہیں لگے گا، جواز دینا پڑے گا۔
چیف جسٹس ثاقب نثار نے کہا کہ جےآئی ٹی نے اپنے مینڈیٹ سے تجاوزکیا، جسٹس اعجازالاحسن نے کہا کہ خط میں جےآئی ٹی اورایف آئی اے کی رائے تھی۔
اٹارنی جنرل نے کہا کہ خدشات کا اظہارجے آئی ٹی سربراہ کے خط سے کیا گیا تھا، جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ وزیراعلیٰ کوسفرکرنا پڑتا ہے، چیف جسٹس نے کہا کہ ای سی ایل میں نام ڈالنا ایک دھبہ ہے۔
چیف جسٹس نے کہا کہ گورنر راج کی باتیں کیوں ہو رہی ہیں، آئین سے ہٹ کر کوئی کام ہوا تو ختم کرنے میں ایک سیکنڈ نہیں لگے گا۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ ایم این اے، وزرا، چیف منسٹرزکے نام شامل کرنے پرغورکریں، کسی کا نام ای سی ایل میں ڈ ال دینا بہت بڑا دھبہ ہے۔
انہوں نے کہا کہ وزیراعلیٰ کا نام جے آئی ٹی سفارش پرسوچ بچار کےبغیر ڈال دیا گیا، ای سی ایل کی رپورٹ حتمی نہیں اورنا ہی عدالت نے کوئی فیصلہ دیا۔
اٹارنی جنرل نے کہا کہ جےآئی ٹی نے تاثردیا ای سی ایل میں نام ڈالنے کا حکم عدالت کا ہے، خط کی آخری لائن یہ ہی ہے نام جلدی ای سی ایل میں ڈالیں رپورٹ دینی ہے۔
وکیل مراد علی شاہ نے کہا کہ ای سی ایل نظرثانی ہونےتک وزیراعلیٰ کا نام نکالنے کا حکم دیا جائے، چیف جسٹس نے کہا کہ عدالت یہ حکم نہیں دے سکتی اس لیے ہم نظرثانی کی ہدایت کررہے ہیں۔
چیف جسٹس میاں ثاقب نثار نے کہا کہ جو بھی کام ہونے ہیں، آئین کے مطابق ہوں گے، کسی کو جمہوریت کے منافی کوئی قدم نہیں اٹھانے دیں گے۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ نام ای سی ایل میں ڈالنے پرنظرثانی کریں معاملہ کابینہ میں لے جائیں، نمایاں سیاست دانوں کا نام ای سی ایل میں شامل کردیا گیا ہے۔
انہوں نے ریمارکس دیے کہ محض جےآئی ٹی کے خط پرنام ای سی ایل میں شامل نہ کیے جائیں، وزیراعلیٰ سندھ کووزیراعظم کے ساتھ ترکی جانا پڑے توکیا کریں گے۔
چیف جسٹس ثاقب نثار نے کہا کہ کیا جےآئی ٹی نے ٹرائل کنڈکٹ کرانا تھا، جےآئی ٹی کا مینڈیٹ اور اختیارکیا ہے، ای سی ایل میں نام ڈالنے کی سفارش کرکے تاثرعدالت کا دیا گیا۔
انہوں نے ریمارکس دیے کہ کیاعدالت نے نام ای سی ایل میں شامل کرنے کی آبزرویشن دی تھی، چیف جسٹس نے کہا کہ کیا سمجھ کرمرادعلی شاہ کا نام جے آئی ٹی نے ای سی ایل میں ڈلوایا۔
سربراہ جے آئی ٹی نے بتایا کہ اسٹیٹس کونہیں دیکھا کردارکودیکھ کرنام ای سی ایل میں ڈالا۔ ایڈووکیٹ جنرل نے کہا کہ مرادعلی شاہ کا نام ای سی ایل سے نکالا جائے۔
چیف جسٹس نے کہا کہ مرادعلی شاہ نے باہرجانا ہے تو درخواست دیں نام نکلوا دیں گے، کابینہ کےآئندہ اجلاس میں معاملے کا دوبارہ جائزہ لیا جائے گا۔
چیف جسٹس ثاقب نثار نے کہا کہ جےآئی ٹی اتنا کام کرے جتنا اختیاردیا گیا ہے، جے آئی ٹی کی ستائش کرسکتے ہیں تواختیارسے تجاوزپرسرزنش بھی۔
سپریم کورٹ نے جعلی بینک اکاؤنٹس کیس میں سابق صدر آصف علی زرداری اور ان کی ہمشیرہ فریال تالپور کو ہفتےکے آخرتک جواب جمع کرانے کی مہلت دیتے ہوئے سماعت پیر تک ملتوی کردی۔
جعلی بینک اکاؤنٹس کیس: ملزمان کی جے آئی ٹی رپورٹ مسترد کرنےکی استدعا
دوسری جانب ملزمان انور مجید اور عبدالغنی نے سپریم کورٹ میں اپنے جمع کرائے گئے جواب میں خود کو معصوم قرار دے کر جے آئی ٹی رپورٹ مسترد کرنے کی استدعا کی ہے۔
یاد رہے کہ جے آئی ٹی سربراہ نے 20 دسمبر کو جعلی بینک اکاؤنٹس کیس کی حتمی رپورٹ سپریم کورٹ میں جمع کرائی تھی
جعلی اکاؤنٹس کیس: آصف زرداری سمیت 172 افراد کے بیرونِ ملک سفر پر پابندی
بعدازاں حکومت نے رپورٹ کی روشنی میں پیپلزپارٹی کی قیادت سمیت 172 افراد کے نام ای سی ایل میں ڈال دیے تھے۔