اسلام آباد : اصغر خان کیس میں جسٹس گلزار نے اہم ریمارکس دیتے ہوئے کہا ایسا معلوم ہوتا ہے ایف آئی اے ہاتھ اٹھاناچاہتی ہے، اس کیس میں پبلک منی کا معاملہ ہے، اٹارنی جنرل بتائیں کورٹ مارشل کی بجائے تفتیش کیوں ہورہی ہے؟
تفصیلات کے مطابق سپریم کورٹ میں جسٹس گلزار احمد کی سربراہی میں 3 رکنی بینچ نے اصغر خان کیس کی سماعت کی ، بینچ میں جسٹس فیصل عرب اور جسٹس اعجاز الاحسن شامل تھے ، سابق وفاقی وزیر عابدہ حسین عدالت میں پیش ہوئیں ، عابدہ حسین اصغر خان کیس میں اہم فریق ہیں۔
سماعت میں جسٹس گلزار نے کہا ایسامعلوم ہوتا ہے ایف آئی اے ہاتھ اٹھانا چاہتی ہے، اٹارنی جنرل بتائیں کورٹ مارشل کی بجائے تفتیش کیوں ہورہی ہے، جس پر اٹارنی جنرل نے بتایا کورٹ مارشل سے پہلے تفتیش کرنا قانونی تقاضاہے۔
جسٹس اعجاز نے استفسار کیا ریٹائرمنٹ سے کتنے عرصے بعد تک کورٹ مارشل ہوسکتا ہے؟ اٹارنی جنرل نے جواب دیا پبلک منی کا معاملہ ہو تو کسی وقت بھی کورٹ مارشل ہوسکتا ہے۔
جس پر جسٹس گلزار نے کہا اس میں پبلک منی کاہی معاملہ ہے، ایف آئی اے نے کہا بینکوں میں 28 سال سے پہلے کا ریکارڈ موجود نہیں، اسی لئے ہمیں کوئی ثبوت حاصل نہیں ہوپا رہے، ایسا ہے تو بینکوں کے صدور کو بلاکر پوچھتے ہیں کیا معاملہ ہے، اگلہ اقدام دونوں رپورٹس کا مشترکہ جائزہ لیکر کریں گے، وقت مانگا گیا ہے اسی لئے مزیدسماعت ملتوی کی جاتی ہے۔
بعد ازاں سپریم کورٹ نے ایف آئی اے کی مہلت کی استدعا پر سماعت چار ہفتے کے لئے ملتوی کردی۔
یاد رہے 2 روز قبل چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس آصف سعید کھوسہ نے مشہور زمانہ اصغر خان عمل در آمد کیس کی سماعت کے لیے نیا بینچ تشکیل دے کر سپریم کورٹ میں سماعت کے لیے مقرر کر دیا تھا۔
مزید پڑھیں : اصغر خان کیس، ایف آئی اے نے سپریم کورٹ سے مدد مانگ لی
ہفتے کے روز ایف آئی اے نے اصغر خان کیس میں سپریم کورٹ سے مدد مانگی تھی ، ایف آئی اے نے رپورٹ میں کہا تھا کہ سیاستدانوں میں رقوم کی تقسیم کی تحقیقات میں کسر نہ چھوڑی، رقوم تقسیم کرنے والے افسران کے نام ظاہر نہیں کیےگئے، کسی نے پیسوں کی تقسیم قبول نہیں کی جبکہ رقوم کی تقسیم میں ملوث اہلکاروں سے متعلق نہیں بتایاگیا۔
ایف آئی اے نے استدعا کی تھی کیس کی تحقیقات بند گلی میں داخل ہوگئی ہے ، عدالت رہنمائی کرے۔
واضح رہے 11 جنوری کو سپریم کورٹ نے اصغرخان کیس بند نہ کرنے کا فیصلہ کیا تھا ، سابق چیف جسٹس ثاقب نثار نے ریمارکس میں کہا تھا کہ اصغرخان نے اتنی بڑی کوشش کی تھی، ہم ان کی محبت اورکوشش رائیگاں نہیں جانے دیں گے۔
جس کے بعد 18 جنوری 2019 کو سپریم کورٹ نے اصغر خان کیس کاعبوری تحریری حکم نامہ جاری کیا تھا، جس میں سیکرٹری دفاع کو ذاتی حیثیت میں طلب کرتے ایف آئی اے ایک ہفتے میں جواب جمع کرانے کی ہدایت کی تھی۔
عبوری تحریری حکم نامے میں کہا گیا تھا ایف آئی اے کے دلائل سے مطمئن نہیں ہیں، ہمارےخیال کے مطابق کچھ چیزوں سےمتعلق تفتیش کی ضرورت ہے۔