تازہ ترین

کچے کے ڈاکوؤں کو اسلحہ فراہم کرنیوالے 3 پولیس افسران سمیت 7 گرفتار

کراچی : پولیس موبائل میں جدید اسلحہ سندھ اسمگل...

پاکستان کو آئی ایم ایف سے 6 ارب ڈالر قرض پروگرام کی توقع

وفاقی وزیر خزانہ محمد اورنگزیب نے کہا ہے کہ...

اسرائیل کا ایران پر فضائی حملہ

امریکی میڈیا کی جانب سے یہ دعویٰ سامنے آرہا...

ڈی پی او تبادلہ کیس: سپریم کورٹ کا پولیس میں سیاسی مداخلت کی تحقیقات کا حکم

اسلام آباد : سپریم کورٹ نے سابق ڈی پی او پاکپتن کے تبادلے پرازخود نوٹس کیس کی سماعت کے دوران پولیس میں سیاسی مداخلت کی تحقیقات کا حکم دیتے ہوئے ایک ہفتے میں رپورٹ طلب کرلی۔

تفصیلات کے مطابق سپریم کورٹ میں چیف جسٹس کی سربراہی میں تین رکنی بینچ نے سابق ڈی پی او پاکپتن رضوان گوندل کے تبادلے پر ازخود نوٹس کی سماعت کی۔

عدالت عظمیٰ میں آئی جی پنجاب پولیس، رضوان گوندل، احسن جمیل گجر، خاور مانیکا اور ان کی صاحبزادی سمیت دیگرافراد پیش ہوئے۔

ایڈیشنل ایڈووکیٹ جنرل نے عدالت عظمیٰ کو آگاہ کیا کہ آئی جی پنجاب پولیس سید کلیم امام، سابق ڈی پی او پاکپتن رضوان گوندل اور پی آر او نے بیان حلفی جمع کرا دیے ہیں۔

آئی جی پنجاب نے عدالت میں کہا کہ افسران کوآئندہ بغیراجازت وزیراعلیٰ ہاؤس جانے سے روکا جس پرچیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ آپ نے واقعے کے وقت ہی افسران کوکیوں نہیں روکا۔

چیف جسٹس میاں ثاقب نثار نے ریمارکس دیے کہ آپ توکہتے ہیں 24 گھنٹے کام کرتے ہیں، ڈی پی او کے تبادلے کی فائل بھی دکھائیں۔

ایڈیشنل ایڈووکیٹ جنرل پنجاب نے بتایا کہ تبادلے کا زبانی حکم دیا گیا تھا جس پرچیف جسٹس نے استفسارکیا کہ رات ایک بجے کہاں سے تبادلے کا حکم دیا۔

انہوں نے آئی جی پنجاب پولیس سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا کہ آپ نے حاکم کے حکم کی تعمیل کر دی، کیا آپ نے رضوان گوندل اورآرپی او سے ملاقات کا پوچھا؟۔

آئی جی سید کلیم امام نے کہا کہ خاتون سے بد تمیزی پررضوان گوندل نے کوئی کارروائی نہیں کی، انہوں نے افسران سے واقعات سے متعلق معلومات چھپائیں، تبادلہ انتظامی فیصلہ تھا۔

چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ تبادلہ رات ایک بجے زبانی کرنے کی کیا ضرورت تھی، بتائیں کس انکوائری کی روشنی میں تبادلے کا حکم دیا۔

آئی جی پنجاب پولیس نے جواب دیا کہ تبادلےکا فائل ورک زبانی احکامات کے بعد ہوا، کرائم ڈائری دیکھ کربہت سے فیصلے رات کو کرتا ہوں۔

سید کلیم امام نے کہا کہ ڈی آئی جی ہیڈ کوارٹرکورات ایک بجے احکامات دیے تھے، بطورایس ایس پی اسلام آباد میرا تبادلہ رات 2 بجے ہوا تھا۔

چیف جسٹس ثاقب نثار نے کہا کہ احسن جمیل گجرکے خلاف کیا کارروائی کی، آپ کون ہوتے ہیں پولیس کوحکم دینے والے جس پر احسن جمیل گجر نے جواب دیا کہ خاورمانیکا کے بچوں کا ان آفیشل گارڈین ہوں۔

احسن جمیل گجر نے بتایا کہ میں نےکسی تبادلے کا نہیں کہا جس پرچیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ آئی جی صاحب کوچیمبرمیں کہا تھا سچ بولیں۔

انہوں نے کہا کہ مشترکہ دوست کے ذریعے ڈی پی او کو یغام بھیجا تھا جس پر چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ چھوٹا ساواقعہ تھا وزیراعلیٰ ملوث ہوگئے۔

چیف جسٹس نے دوران سماعت ریمارکس دیے کہ ایک اجلاس میں آئی جیزکوکہا تھا سیاست دانوں کی محتاجی چھوڑدیں، پولیس سیاسی دباؤاورحاکموں کے کہنے پر کام نہ کرے۔

آئی پنجاب نے کہا کہ ڈی پی اونے خاتون کے ساتھ بدتمیزی کے واقعے کا نوٹس نہیں لیا، چیف جسٹس نے آئی جی سے مکالمہ کرےتے ہوئے کہا کہ کیا بطورکمانڈرآپ نے دیانتداری کا مظاہرہ کیا۔

چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ زبانی ٹرانسفرکے احکامات کیوں دیےتھے؟ ہمیں فائل دکھائیں، آئی جی نے جواب دیا کہ میں خود کوعدالت کے رحم وکرم پرچھوڑتا ہوں۔

سید کلیم امام نے کہا کہ میں نے تبادلہ پوسٹ ڈیٹڈ کرنا تھا جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ ہمیں پوسٹ ڈیٹڈ فائل ہی دکھا دیں، آئی جی پنجاب پولیس نے جواب دیا کہ ابھی فائل میرے پاس نہیں ہے۔

احسن گجر نے کہا کہ بچے دباؤمیں تھے، افریقا میں مشترکہ دوست کوفون آیا جس پر چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ افریقا سے یاد آئی ایس آئی کے کرنل کدھرہیں؟۔

چیف جسٹس نے کرنل طارق سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا کہ کیا یہ قانون کی حکمرانی ہے؟ اتنا بڑا واقعہ پیش نہیں آیا تھا کہ کرنل بھی درمیان میں آگئے۔

چیف جسٹس نے احسن گجر سے استفسار کیا کہ آپ کا وزیراعلیٰ پنجاب سے کیا تعلق ہے؟ انہوں نے جواب دیا کہ میں ایک شہری ہوں، چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ عدالت میں کھڑے ہوکرجھوٹ مت بولیں۔

انہوں نے ریمارکس دیے کہ جس کا دل چاہے پولیس کو بلا کرذلیل کردے، آپ بچوں کے ماما ہیں یا چاچا؟ ہم ایف آئی آردرج کرائیں گے۔

سابق ڈی پی او پاکپتن رضوان گوندان نے عدالت میں کہا کہ احسن گجرنے کہا تھا پیغام بھیجا تھا آپ نےعمل کیوں نہیں کیا؟ کہا انگریزدورمیں اس خاندان کی جائیدادیں ڈپٹی کمشنردیکھتا تھا۔

چیف جسٹس نے سوال کیا کہ وزیراعلیٰ پنجاب نے تیسرے آدمی کی بات کیوں سنی؟ آرپی او ساہیوال نے عدالت میں کہا کہ میں رضوان گوندل کے بیان کی تصدیق کرتا ہوں۔

چیف جسٹس میاں ثاقب نثار نے کہا کہ ہم کیوں نہ وزیراعلیٰ پر62 ون ایف کا اطلاق کریں، وکیل پنجاب حکومت نے عدالت کو بتایا کہ وزیراعلیٰ نے کہا میں نے اچھی نیت سے پولیس کوبلوایا۔

پنجاب حکومت کے وکیل نے کہا کہ وزیراعلیٰ پنجاب کا کہنا ہے آئندہ ایسا نہیں ہوگا جس پر جسٹس عمر عطا بندیال نے ریمارکس دیے کہ پاکستان قبائلی معاشرہ نہیں ہے۔

عدالت عظمیٰ نے ریمارکس دیے کہ خاورمانیکا آپ حیات ہیں احسن گجرآپ کے بچوں کے کسٹوڈین کیسے؟ جس پر خاور مانیکا نے جواب دیا کہ احسن گجرفیملی کا ہمارے ساتھ 1970 سے روحانی تعلق ہے۔

انہوں نے عدالت کو بتایا کہ میری بیٹی سے پولیس نے بدتمیزی کی وہ کانپ رہی تھی، میری بیٹی نے مجھے کہا پولیس نے شراب پی رکھی ہے۔

خاور مانیکا نے کہا کہ میں نے پولیس کوڈانٹا پولیس نے معافی مانگی، میرے پاؤں پکڑے گئے میں نے کہا آپ بابا فرید سے معافی مانگو۔

انہوں نے عدالت میں کہا کہ بدتمیری کی گئی میری بیٹی کوبلوا کرپوچھ لیں، کمرہ عدالت میں خاور مانیکا آبدیدہ ہوگئے۔

چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ ہم بچی کے والدین ہیں، بچی کے ساتھ جس اہلکارنے بدتمیزی کی ایکشن ہوگا، سمجھ سےبالاترہے وزیراعلیٰ پنجاب نے کیوں مداخلت کی۔

پی ایس او وزیراعلیٰ پنجاب حیدر نے عدالت کو بتایا کہ رضوان گوندل اورآر پی او کو وزیراعلیٰ نے چائے پر بلانے کا کہا، ڈی پی اوکے تبادلے کا صبح پتہ چلا۔

ایڈیشنل آئی جی نے عدالت میں کہا کہ آئی جی سید کلیم امام کے کہنے پرڈی پی او کے ٹرانسفر پر دستخط کیے۔

رضوان گوندل نے عدالت کو بتایا کہ سی ایس او حیدر نے کہا وزیراعلیٰ نے کہا ڈی پی اوکی شکل نہیں دیکھنا چاہتا۔

جسٹس عمر عطا بندیال نے سی ایس او حیدر سے استفسار کیا کہ کیا آپ نے ایسا کہا؟ جس پرسی ایس او نے جواب دیا کہ میں نے ایسا نہیں کہا۔

جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ آپ کیوں جھوٹ بول رہے ہیں؟ چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ ہم جےآئی ٹی سے تحقیقات کرا لیتے ہیں۔

چیف جسٹس میاں ثاقب نثار نے ریمارکس دیے کہ ہم وزیراعلیٰ کو62 ون ایف کے تحت نوٹس جاری کرتے ہیں، کیوں نہ وزیراعلیٰ پنجاب کوطلب کرکے پوچھا جائے۔

انہوں نے ریمارکس دیے کہ دائیں بائیں اوردرمیان سے جھوٹ بولاجا رہا ہے، آپ نے پولیس فورس کی عزت بچانے کے لیے کیا اقدامات کیے۔

چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ ہمارا صرف ایک مقصد ہے پولیس خود مختارہو، وزیراعظم نے بھی اس طرح کی بات کی۔

انہوں نے سوال کیا کہ احسن گجرکون ہے اس کا وزیراعلیٰ سے کیا تعلق ہے، وہ کیسے وزیراعلیٰ کے پاس پہنچ گیا، معاملے کی تحقیقات کرائیں۔

چیف جسٹس نے کہا کہ پاکستان میں قبائلی روایت نہیں جمہوریت ہے، انہوں نے کرنل طارق سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا کہ آپ نے کیوں فون کرکے مداخلت کی؟۔

کرنل طارق نے عدالت کو بتایا کہ میں اوررضوان گوندل اکٹھے ٹریننگ کرتے رہے ہیں جس پر چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ میں آپ کے حوالے سے ادارے سے تحقیقات کراؤں گا۔

انہوں نے ریمارکس دیے کہ اگراختیار حاصل ہے توذاتی مداخلت والے آپ کون ہوتے ہیں، کرنل طارق نے کہا کہ رضوان گوندل سے کہا کسی ڈیرے پرجانے کی ضرورت نہیں ہے۔

چیف جسٹس نے کرنل طارق سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا کہ سب جھوٹ بول رہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ پولیس کے معاملات میں ایک غیرمتعلقہ شخص نے مداخلت کی۔

عدالت عظمیٰ نے آئی جی پنجاب پولیس سید کلیم امام کو حکم دیا کہ ایک ہفتے میں انکوائری کر کے رپورٹ پیش کریں، ملزمان کے خلاف کارروائی عمل میں لائی جائے۔

سپریم کورٹ نے معاملے میں مداخلت کے پہلو پر انکوائری اور وزیراعلیٰ کے چیف سیکیورٹی افسر عمر کو احسن جمیل کی مداخلت کو دیکھنے کی ہدایت کردی۔

عدالت عظمیٰ نے حکم دیا کہ انکوائری میں رضوان گوندل اورآرپی او ساہیوال کے بیانات کو مدنظر رکھیں، وزیراعلیٰ کی مداخلت سمیت تمام پہلوؤں پررپورٹ پیش کی جائے۔

بعدازاں سپریم کورٹ آف پاکستان نے سابق ڈی پی او پاکپتن رضوان گوندل کیس کی سماعت ایک ہفتے تک ملتوی کردی۔

اس سے قبل آج سپریم کورٹ میں پیشی کے موقع پر خاور مانیکا نے میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا تھا کہ معاملہ عدالت میں ہے، عدالت میں ہی بات کروں گا، عدالت سے قبل میڈیا سے بات کرنا مناسب نہیں ہے۔

عدالت عظمیٰ میں گزشتہ سماعت کے دوران چیف جسٹس نے آئی جی پنجاب کی سرزنش کرتے ہوئے کہا تھا کہ عدالت سے جھوٹ بولیں گے تواس کے نتائج بھتگنا ہوں گے۔

چیف جسٹس میاں ثاقب نثار نے ریمارکس دیے تھے کہ آپ بھی گریڈ 21 کے افسراور22 پرکا م کررہے ہیں، کیوں نہ سیکریٹری اسٹیبلشمنٹ کوبلا کرآپ کو بھی تبدیل کردیا جائے۔

انہوں نے استفسار کیا تھا کہ رات کو ایک بجے تبادلے کا حکم دیا، کیا صبح نہیں ہوتی؟ کیا اگلے دن کا سورج نہیں چڑھنا تھا؟۔

آئی جی پنجاب پولیس کا کہنا تھا آپ خود معاملے کے حقائق پوچھ سکتے ہیں، چیف جسٹس نے کہا کہ آپ کون ہوتے ہیں عدالت کوکہنے والے ہم معلوم کریں۔

جسٹس عمرعطا بندیال نے ریمارکس دیے تھے کہ عدالت سے بات کرنے کا طریقہ کار ہوتا ہے جس پر سید امام کلیم نے کہا تھا کہ میں اپنےالفاظ واپس لیتا ہوں۔

چیف جسٹس نے ڈی پی او پاکپتن کے تبادلے کا نوٹس لے لیا

یاد رہے 30 اگست کو چیف جسٹس آف پاکستان نے ڈی پی او پاکپتن رضوان گوندل کے تبادلے پر ازخود نوٹس لیا تھا۔

Comments

- Advertisement -