تازہ ترین

وزیراعظم کی راناثنااللہ اور سعد رفیق کو بڑی پیشکش

اسلام آباد: وزیراعظم شہباز شریف اور اسحاق ڈار نے...

چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے پروٹوکول واپس کر دیا

چیف جسٹس آف پاکستان قاضی فائز عیسیٰ نے چیف...

کاروباری شخصیت کی وزیراعظم کو بانی پی ٹی آئی سے ہاتھ ملانے کی تجویز

کراچی: وزیراعظم شہباز شریف کو کاروباری شخصیت عارف حبیب...

وزیراعظم شہباز شریف کی مزار قائد پر حاضری

وزیراعظم شہباز شریف ایک روزہ دورے پر کراچی پہنچ...

قاتل کون؟ اسکاٹ لینڈ یارڈ کے تفتیشی افسر کی ذہانت پر سوال اٹھ گئے

یہ 1860 کی بات ہے، اسکاٹ لینڈ پولیس نے ایک ایسے قتل کی تفتیش شروع کی جس نے افسران کو گویا چکرا کے رکھ دیا۔

مسٹر کینٹ نے پولیس کو رپورٹ کی تھی کہ ان کا چار سالہ بچّہ گھر سے غائب ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ اسے گھر میں ہر جگہ تلاش کرلیا ہے، مگر اس کا کوئی سراغ نہیں ملا۔

بعد میں بچے کی لاش گھر کے احاطے سے باہر بنائے گئے ایک ٹائلٹ سے برآمد ہوئی۔ اس معصوم کا گلا کٹا ہوا تھا جب کہ قاتل نے سینے میں چُھرا بھی گھونپا تھا۔

مسٹر کینٹ سے تفتیش کے دوران پولیس کو معلوم ہوا کہ انھوں نے صبح بچے کو بستر پر نہ پاکر ہر جگہ تلاش کیا اور ناکامی کے بعد پولیس کو اس کی اطلاع دی تھی۔ انھوں نے یہ بھی بتایا کہ انھیں‌ صبح بیدار ہونے کے بعد گھر سے باہر جانے والا ایک دروازہ بھی کُھلا ملا تھا۔

پولیس نے دروازے سے متعلق مسٹر کانٹ کی بات کو اہمیت ضرور دی تھی، لیکن انھیں شک تھا کہ قاتل باہر سے نہیں آیا بلکہ گھر کا کوئی فرد ہی ہے۔

جائے وقوع سے شواہد اکٹھا کرنے کے بعد تفتیش شروع ہوئی جس میں کانٹ فیملی اور گھر کے ملازمین سبھی کو شامل کیا گیا۔

اس خاندان کے بارے میں ابتدائی معلومات سے پولیس کے اس خیال کو تقویت مل رہی تھی کہ قاتل گھر کا ہی فرد ہے۔
کنبے کے سربراہ مسٹر کانٹ نے دو شادیاں کی تھیں۔ پہلی بیوی جو چار بچوں کی ماں تھی، اس کا انتقال ہو چکا تھا۔ ان کے چار بچوں کے علاوہ اس گھر میں مسٹر کانٹ اپنی دوسری بیوی اور اس سے پیدا ہونے والے تین چھوٹے بچوں کے ساتھ رہتے ہیں۔

قاتل کو پکڑنے کے لیے اسکاٹ لینڈ یارڈ کے تفتیشی محکمے کے افسر جیک وِچر کا انتخاب کیا گیا۔ وہ ایک قابل اور ذہین افسر سمجھے جاتے تھے اور اس سے قبل کئی پیچیدہ اور پُراسرار کیسوں کو نمٹا چکے تھے۔

اس تفتیشی افسر کا خیال تھا کہ یہ قتل بچے کی سولہ سالہ سوتیلی بہن نے کیا ہے۔ وہ اسے عدالت تک لے آیا، لیکن ثابت نہیں کرسکا کہ وہی اُس بچے کی قاتل ہے۔ یوں مقتول کی سوتیلی بہن بری ہو گئی۔

یہ اس زمانے کا مشہور کیس تھا اور اس ناکامی نے وِچر کی قابل اور ذہین افسر جیسی شہرت کو بھی مشکوک کردیا۔ اسے سخت تنقید کا سامنا کرنا پڑا۔ اخبارات نے اس کے خلاف لکھنا شروع کر دیا اور اپنے ڈپارٹمنٹ کے حاسدین کی جانب سے بھی اس کی مخالفت زوروں پر تھی۔

تاہم پانچ سال بعد سب کو وَچر کی ذہانت کا اعتراف کرنا پڑا، کیوں‌ کہ اسی لڑکی نے ایک پادری کے ساتھ پولیس اسٹیشن پہنچ کر اعترافِ جرم کر لیا تھا۔ اس اعتراف پر اسے بیس سال قید کی سزا سنائی گئی۔

رہائی کے بعد وہ آسٹریلیا چلی گئی جہاں نرسنگ کی تربیت حاصل کی اور باقی زندگی جذام کے مریضوں کی دیکھ بھال اور خدمت کرتے ہوئے گزاری۔

اسکاٹ لینڈ کی تاریخ کے اسی مشہور قتل پر برطانوی مصنفہ کیٹ سمرسکیل نے ایک کہانی بُنی جو لندن میں سب سے زیادہ فروخت ہونے والی کتابوں میں شامل ہے۔

1965 میں پیدا ہونے والی سمرسکیل نے صحافت کی تعلیم مکمل کرکے ٹیلی گراف میں آرٹ اور ادب کے صفحے کی ادارت کی اور لکھنے لکھانے کا سلسلہ جاری رکھا۔

انھوں نے ”دی سسپِیشنز آف مسٹر وِچر“ کے نام سے کتاب لکھی جو پُرتجسس واقعات اور مہم جوئی سے متعلق ہی نہیں تھی بلکہ اس میں اُس دور کے طرزِ زندگی اور معاشرتی حالات کا احاطہ بھی کیا گیا تھا۔ بعد میں ان کی یہ کہانی ٹیلی ویژن پر ڈرامائی شکل میں پیش کی گئی۔

کہا جاتا ہے کہ یہ کتاب نہ صرف انیسویں صدی کے سنسنی خیز کیس کی تفصیلات سامنے لاتی ہے بلکہ اس دور کے سماج کی اور ایک خاندان کی ذاتی زندگی کی خوب صورت عکاسی ہے اور یہ کتاب برطانوی ادب میں بہت اہمیت رکھتی ہے۔

Comments

- Advertisement -