اردو زبان کے ممتاز ادیب، نقّاد اور ماہرِ تعلیم پروفیسر سید وقار عظیم 17 نومبر 1976ء کو یہ دنیا چھوڑ گئے تھے۔ آج ان کی برسی ہے۔ افسانوی ادب کے اوّلین نقاد کا درجہ رکھنے والے سّید وقار عظیم اردو کے پہلے "غالب پروفیسر” بھی مقرر کیے گئے تھے۔
سیّد وقار عظیم ایک محقق اور مترجم بھی تھے جو محنت اور لگن کے ساتھ اپنے وسیع مطالعے اور علمی استعداد کو بروئے کار لاتے ہوئے مختلف موضوعات پر تصنیف و تالیف میں مصروف رہے اور متعدد کتب یادگار چھوڑیں۔
سید وقار عظیم 15 اگست 1910ء کو الٰہ آباد (یو پی) میں پیدا ہوئے تھے۔ الٰہ آباد یونیورسٹی سے ایم اے (اردو) کیا۔ وہ الٰہ آباد یونیورسٹی اور جامعہ ملیہ دہلی میں تدریس سے منسلک رہے۔ اسی زمانے میں سرکاری سطح پر نکلنے والے ادبی جریدے "آج کل” کی ادارت سنبھالی۔ قیامِ پاکستان کے بعد 1949ء میں لاہور چلے آئے جہاں نقوش کے مدیر ہوئے۔ 1950ء میں اورینٹل کالج لاہور میں اردو کی تدریس کا سلسلہ شروع کیا جو 1970ء تک جاری رہا۔ اس عرصے میں انھوں نے اقبال اکیڈمی اور مختلف ادبی مجالس اور انجمنوں اور پنجاب یونیورسٹی کے شعبہ تصنیف و تالیف کے لیے بھی خدمات انجام دیں۔
اردو ادب کو سید وقار عظیم نے کئی مضامین سمیت اہم موضوعات پر تصانیف سے مالا مال کیا۔ ان میں افسانہ نگار، داستان سے افسانے تک، نیا افسانہ، ہماری داستانیں، فن اور فن کار، ہمارے افسانے، شرح اندر سبھا، اقبال بطور شاعر، فلسفی اور اقبالیات کا تنقیدی جائزہ سرفہرست ہیں۔ سید وقار عظیم لاہور میں میانی صاحب کے قبرستان میں آسودۂ خاک ہیں۔