تازہ ترین

حکومت کا ججز کے خط پر انکوائری کمیشن بنانے کا اعلان

اسلام آباد: وفاقی حکومت نے اسلام آباد ہائی کورٹ...

فوجی عدالتوں سے 15 سے 20 ملزمان کے رہا ہونے کا امکان

اسلام آباد : اٹارنی جنرل نے فوجی عدالتوں سے...

تابش دہلوی کا تذکرہ جو عمدہ شاعر اور خوب صورت نثر نگار بھی تھے

2004 میں آج ہی کے دن تابش دہلوی اس دارِ فانی کو چھوڑ کر خالقِ حقیقی سے جا ملے تھے۔ ان کی 93 سال تھی۔ وہ اردو کے مایہ ناز غزل گو شاعر، نثر نگار اور براڈ کاسٹر تھے۔

مخصوص لب و لہجے کے حامل تابش دہلوی نے 9 نومبر 1911ء کو دہلی کے ایک علمی و ادبی گھرانے میں جنم لیا۔ اصل نام ان کا سید مسعود الحسن تھا اور دنیائے ادب میں تابش دہلوی مشہور ہوئے، ابتدائی تعلیم اپنی والدہ سے حاصل کی، اور بعد میں لکھنؤ کے سینٹ فرانسز کانوینٹ اسکول میں داخل کروائے گئے۔ 1919ء میں اُن کے رشتے کے نانا مولوی عنایت اللہ نے انھیں حیدرآباد دکن کے مشہور دارُ الترجمہ میں بلوا لیا۔ وہاں ایک قدیم اسکول سے آٹھویں جماعت تک تعلیم حاصل کرنے کے بعد رام جپسی اسکول نمبر1 سے میٹرک کا امتحان پاس کیا۔ دوسری جنگِ عظیم چھڑ جانے کی وجہ سے ان کا تعلیمی سلسلہ منقطع ہوگیا اور پھر وہ 1947ء میں پاکستان آگئے جہاں لاہور میں ابتدائی برسوں میں سکونت اختیار کیے رکھی اور پھر کراچی منتقل ہوگئے۔ 1954ء میں اسلامیہ کالج کراچی میں فرسٹ ایئر میں داخلہ لیا۔ اسی عرصہ میں رشتۂ ازدواج میں منسلک ہوگئے۔ شادی کے بعد ایف اے اور پھر 1958ء میں کراچی یونیورسٹی سے گریجویشن کیا۔

پاکستان ہجرت سے قبل وہ 1932ء میں ٹیلی گراف کے محکمے میں ملازم رہے تھے اور کچھ عرصہ ریڈیو سے بھی منسلک رہے، جہاں خبر خوانی اور ادبی پروگراموں کی میزبانی کی جس نے ان کا شوق شاعری اور ذوقِ ادب نکھارا۔ کراچی میں بھی 1963ء تک وہ ریڈیو پر خبریں پڑھتے رہے۔ ان کی آواز بھاری اور تلفظ و ادائیگی بہت خوب صورت تھی۔ 1963ء میں اسکول براڈ کاسٹ کے شعبے سے بطور پروڈیوسر منسلک ہوگئے اور 1980ء میں سینئر پروڈیوسر کے عہدے تک پہنچنے کے بعد ریٹائر ہوئے۔ حکومتِ پاکستان نے انھیں تمغائے امتیاز سے نوازا تھا۔

تابش دہلوی کی پہلی نظم یا غزل 1931ء میں دہلی کے مشہور جریدے ’’ساقی‘‘ میں شایع ہوئی تھی۔ وہ بنیادی طور پر غزل کے شاعر تھے، مگر غزل کی صنف کے ساتھ نعت گوئی، مرثیہ گوئی میں بھی کمال رکھتے تھے جب کہ دیگر اصنافِ سخن میں ہائیکو، آزاد نظموں کے ساتھ گیت نگاری اور ملّی نغمات بھی تخلیق کیے۔

انھوں نے حیدر آباد دکن میں قیام کے دوران حضرت فانی بدایونی کے آگے زانوئے تلّمذ تہ کیا تھا اور ’’یاد ایّامِ صحبتِ فانی‘‘ کے عنوان سے کتاب بھی لکھی تھی جو ان کی نثر نگاری کی اوّلین یادگار ہے۔ فکر و فن کے اعتبار سے ان کے کلام میں انفرادیت نظر آتی ہے۔ ان کی شاعری میں قدیم اور جدید روّیوں کے اظہارِ خیال سے لے کر ہیئت تک بدرجۂ اتم موجود ہے۔ ان کی شاعری جہاں اچھوتی اور منفرد صفات کی حامل نظر آتی ہے، وہیں وہ ایک پختہ کار نثر نگار کے طور پر بھی ’’دید باز دید‘‘ کے وسیلے پہچانے جائیں گے جس میں شخصی خاکے، یادیں اور تذکرے شامل ہیں۔ اردو کے اس معروف شاعر کے مجموعہ ہائے کلام نیم روز، چراغِ صحرا، غبارِ انجم، گوہرِ انجم، تقدیس اور دھوپ چھاؤں کے عنوان سے شایع ہوئے۔

تابش دہلوی کی ایک غزل ملاحظہ کیجیے۔
کسی مسکین کا گھر کُھلتا ہے
یا کوئی زخمِ نظر کھلتا ہے
دیکھنا ہے کہ طلسمِ ہستی
کس سے کھلتا ہے، اگر کھلتا ہے
داؤ پر دیر و حرم دونوں ہیں
دیکھیے کون سا گھر کُھلتا ہے
پھول دیکھا ہے کہ دیکھا ہے چمن
حسن سے حسنِ نظر کھلتا ہے
میکشوں کا یہ طلوع اور غروب
مے کدہ شام و سحر کھلتا ہے
چھوٹی پڑتی ہے انا کی چادر
پاؤں ڈھکتا ہوں تو سَر کھلتا ہے
بند کر لیتا ہوں آنکھیں تابشؔ
بابِ نظارہ مگر کُھلتا ہے

وہ کراچی میں سخی حسن قبرستان میں آسودۂ خاک ہیں۔

Comments

- Advertisement -