تازہ ترین

کچے کے ڈاکوؤں کو اسلحہ فراہم کرنیوالے 3 پولیس افسران سمیت 7 گرفتار

کراچی : پولیس موبائل میں جدید اسلحہ سندھ اسمگل...

پاکستان کو آئی ایم ایف سے 6 ارب ڈالر قرض پروگرام کی توقع

وفاقی وزیر خزانہ محمد اورنگزیب نے کہا ہے کہ...

اسرائیل کا ایران پر فضائی حملہ

امریکی میڈیا کی جانب سے یہ دعویٰ سامنے آرہا...

طلعت محمود: ایک کام یاب گلوکار اور ناکام فلمی ہیرو

طلعت محمود نے ابتدا میں اپنی فن کارانہ صلاحیتوں کے اظہار کا ذریعہ لکھنؤ میں ریڈیو جیسے اُس زمانے کے مقبول میڈیم کو بنایا اور سامعین میں مقبول ہونے لگے، لیکن پھر اپنے فن کے قدر دانوں اور خیر خواہوں کے مشورے پر بمبئی کی فلم نگری میں قسمت آزمانے کا فیصلہ کیا۔ یہ فیصلہ ان کی شہرت اور مقبولیت کا سبب بنا۔ طلعت محمود بمبئی کی فلمی دنیا کے آسمان پر بطور گلوکار چمکے اور خوب چمکے۔

طلعت محمود کو ہندی سنیما کے لیے گلوکاری کے ساتھ درجن سے زائد فلموں میں اداکاری کا موقع بھی ملا، لیکن اس میدان میں وہ شائقین کی توجہ حاصل نہ کرسکے۔ البتہ ساز و آواز کی دنیا میں‌ طلعت محمود کو وہ شہرت اور پذیرائی حاصل ہوئی جو بہت کم گلوکاروں کا مقدر بنی ہے۔ آج بھی ان کے گائے ہوئے فلمی نغمات بہت ذوق و شوق سے سنے جاتے ہیں۔ بالی وڈ کی فلموں کے لیے کئی گیتوں کو اپنی آواز میں امر کر دینے والے طلعت محمود کی آج برسی منائی جارہی ہے۔ وہ 9 مئی 1998ء کو انتقال کر گئے تھے۔

لکھنؤ طلعت محمود کا شہر تھا جہاں انھوں نے 24 فروری 1924ء کو آنکھ کھولی۔ ان کے والد کی آواز بھی اچھی تھی اور وہ نعتیں پڑھا کرتے تھے۔ طلعت محمود نے بھی اپنے والد کا اثر لیا اور چھوٹی عمر میں نعتیں پڑھنا شروع کردیں۔ 1940 میں طلعت محمود 16 برس کے تھے جب آل انڈیا ریڈیو، لکھنؤ پر ان کی آواز میں ایک گیت ریکارڈ کیا گیا۔ یہ ان کے فنی سفر کا آغاز تھا اور 1944 میں جب انھیں ایک غیر فلمی گیت گانے کا موقع ملا جس کے بول تھے، ‘تصویر تیری دل میرا بہلا نہ سکے گی’ تو کوئی نہیں جانتا تھا کہ یہ گیت ان کی وجہِ شہرت بن جائے گا۔ طلعت محمود کو ہندوستان بھر میں اس گیت کی بدولت شہرت حاصل ہوئی۔

وہ ہندوستان کے ایک ایسے مسلمان خاندان کے فرد تھے جس میں فلمیں اور اس کے لیے گانا بجانا معیوب سمجھا جاتا تھا، سو طلعت محمود کو بھی ابتدا میں اپنے گھر اور خاندان میں مخالفت کا سامنا کرنا پڑا، لیکن انھوں نے کسی طرح گھر والوں کو رضامند کرلیا اور اپنا سفر جاری رکھا۔ طلعت محمود شکل و صورت کے اچھے تھے اور اسی لیے انھیں بطور ہیرو بھی فلموں میں سائن کیا گیا، لیکن وہ اس میدان میں کام یاب نہ ہوسکے۔ فلم لالہ رخ، ایک گاؤں کی کہانی، دیوالی کی رات، وارث، سونے کی چڑیا، ٹھوکر میں طلعت محمود نے اپنے وقت کی مشہور ہیروئنوں کے ساتھ کام کیا تھا۔ ان اداکاراؤں میں نوتن، مالا سنہا اور ثریا شامل ہیں۔

بھارتی فلم انڈسٹری میں بہ طور گلوکار اُن کی پہچان بننے والا نغمہ فلم آرزو کا ‘‘اے دل مجھے ایسی جگہ لے چل جہاں کوئی نہ ہو’’ تھا۔ ایک اور کام یاب فلم داغ کے لیے انھوں نے ‘‘اے میرے دل کہیں اور چل’’ اور ‘‘ہم درد کے ماروں کا’’ جیسے گیت ریکارڈ کروائے جو بہت مقبول ہوئے۔

اپنی فلمی زندگی میں طلعت محمود نے سب سے زیادہ گانے دلیپ کمار کی فلموں کے لیے ہی گائے: جیسے شامِ غم کی قسم یا حسن والوں کو، اور یہ ہوا یہ رات یہ چاندنی وغیرہ قابل ذکر ہیں۔

طلعت محمود نے اکثر المیہ گانے گائے ہیں، اور اسی لیے ان کو دکھ اور کرب کا ترجمان کہا جاتا ہے۔ گلوکار طلعت محمود کو بھارت میں فلم فیئر ایوارڈ کے علاوہ حکومت کی جانب سے پدما بھوشن ایوارڈ سے بھی نوازا گیا۔

Comments

- Advertisement -