تازہ ترین

وزیراعظم شہباز شریف سے سعودی وزیر خارجہ کی ملاقات

اسلام آباد : وزیراعظم شہبازشریف نے سعودی وزیر...

سعودی وفد آج اسلام آباد میں اہم ملاقاتیں کرے گا

اسلام آباد : سعودی وزیر خارجہ شہزادہ فیصل بن...

فیض آباد دھرنا : انکوائری کمیشن نے فیض حمید کو کلین چٹ دے دی

پشاور : فیض آباد دھرنا انکوائری کمیشن کی رپورٹ...

حکومت نے پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافہ کردیا

حکومت کی جانب سے پیٹرولیم مصنوعات کی نئی قیمتوں...

سعودی وزیر خارجہ کی قیادت میں اعلیٰ سطح کا وفد پاکستان پہنچ گیا

اسلام آباد: سعودی وزیر خارجہ شہزادہ فیصل بن فرحان...

شہیدا- بلوچ تلوار، اونٹ اورانتقام کی ایک لازوال داستان

ببرک کارمل جمالی

بلوچستان کئی اعتبار سے پاکستان کا نہایت منفرد صوبہ ہے۔ صوبے میں اکثریت بلوچوں کی صدیوں سے آباد ہے۔ آثار قدیمہ کی دریافتوں سے یہ بات ثابت ہو گئی ہے کہ بلوچستان میں پتھروں کے دور میں بھی آبادی تھی۔ مہر گڑھ کے علاقہ میں سات ہزار سال قبل مسیح کے زمانہ کی آبادی کے نشانات بھی ملے ہیں۔ سکندر اعظم کی فتح سے قبل بلوچستان کے علاقہ پر ایران کی سلطنت کی حکمرانی ہوتی تھی اور ان کے اونٹ گھوڑے بہت مشہور تھے۔ بلوچ سرداروں کے گھوڑے دنیا بھر میں بہت مشہور تھے اگر کوئی سردار (مادہ) گھوڑی پہ سوار ہوتا تھا تو اس گھوڑی کو اس سردار کی بیوی جتنا درجہ دیا جاتا تھا۔ وہی سردار جب انتقال کر جاتا تو اس کی گھوڑی کو اس کے ساتھ دفنا دیاجاتا تھا تاکہ سردار کی گھوڑی پہ کوئی اور سواری نہ کرسکے ۔ حتی ٰکہ کچھ سرداروں کی وفات پہ ان کے کھانے پینے کی اشیاء گلا برتن سونے چاندی کے زیورات سمیت ان کو دفنایا جاتا تھا۔

بلوچستان میں چوکوری قبرستان کئی علاقوں میں موجود ہے جن میں اکثریت سندھ اور بلوچستان میں موجود ہیں ان کی عمر کتنی ہے یہ کوئی نہیں جانتا ہے نہ ہم نہ آثار قدیمہ کے لوگ۔ آج تک آثار قدیمہ کے لوگوں نے ان قبرستانوں پہ تحقیق تک نہیں کی ہے جس کی وجہ سمجھ سے بالاتر ہے۔ ان چوکوری قبرستان کے باہر بنی عمارات کی لمبائی ایک سو فٹ سے بھی ذیادہ ہے جبکہ چوڑائی بیس سے تیس فٹ کے درمیان ہوگی۔ بعض بزرگوں کے بقول یہ چوکوری قبرستان اس وقت بنائے گئے تھے جس وقت بلوچستان کی سر زمین کو سخت پانی کی کمی کا سامنا تھا۔ شاید اسی وجہ سے یہ قبرستان پانی کی جگہ اونٹنی کا دودھ سے بنائے گئے تھے۔ کیونکہ اونٹنی کا دودھ آج جتنا نایاب نہ تھا۔ اس وقت اتنا نایاب نہیں تھا کیونکہ اس وقت سرداروں کے پاس ہزاروں اونٹوں کے قافلے ہوتے تھے جبکہ اس وقت سرداروں کی سب سے ذیادہ قیمتی مال متاع اونٹنی کو سمجھا جاتا تھا۔ کیونکہ ان اونٹوں پہ بلوچوں کی آپس کی کئی لڑائیاں بھی ہوئی تھی جو کئی کئی سالوں تک چلی تھی جس کے نشانات آج بھی موجود ہیں،ان نشانیوں کو تلاش کرتے ہم ایک ایسی جگہ پہنچے جہاں پہ دو بلوچ قبائل بگٹی اور جمالی میں خونی جنگ ہوئی تھی ۔یہ جنگ بھی انہی جانوروں پر شروع ہوئی تھی ، جس کا انجام دونوں سرداروں کی موت پہ ہوا تھا۔

اس رات گھپ اندھیرا تھا چاند کا نام و نشان دور دور تک نہیں تھا۔ سخی صوبدار خان اور لھڑاں خان گہری نیند میں اوطاق میں سوئے ہوئے تھے۔ رات کے اندھیرے میں ایک شخص جبل خان بگٹی آتا ہے اور ان کا گھوڑا ، اوطاق سے چراکر لے جاتا ہے ۔ صبح جب سخی صوبدار خان اور لھڑا ںخان جمالی نیند سے جاگتے ہیں تو گھوڑا نہ دیکھ کر ایک دوسرے کی طرف دیکھ کر کہتے ہیں ۔ ہمارے علاقے میں چوری۔۔۔۔۔۔۔ ہاہاہاہا ۔۔۔۔۔۔۔ ہاہاہاہا۔۔۔۔ یہ مسکراہٹ بدلے کی آگ تھی اور پھر لھڑاں خان اور سخی صوبدار خان ایک دوسرے کی طرف دیکھ کر خوب ہنستے ہیں۔ پھر گھوڑے کے پاؤں کے نشانات لے کر چور کی تلاش میں نکلتے ہیں۔ ان کے لیے چور کو پکڑنا نہ ممکن بات نہ تھی، اگلی صبح صادق سخی صوبدار خان اور لھڑاں خان پاؤں کے نشانات کا پیچھا کرتے چور کے پاس پہنچ جاتے ہیں اور وہاں اپنا گھوڑا دیکھ کر خاموشی سے آگے گزر جاتے ہیں ۔

گھوڑا ان دونوں کی طرف دیکھ کے ناچنے لگتا ہے اس چور کے پاس مقامی سردار وںکے ایک سو کے قریب اونٹ اور پچاس کے قریب گھوڑے تھے۔ سخی صوبدار خان اور لھڑاں خان ان کے سارے اونٹ اور سارے گھوڑے کے بدلے میں مار(بدلہ) کر آتے ہیں اور اس شخص کو چوری کے جرم میں قتل کرکے واپس اپنے گوٹھ آتے ہیں اور اس بدلے کی خوشی میں ایک اونٹ کی سجی بنا کے پورے گاؤں کو کھلاتے ہے اور کہتے ہیں یہ بلوچ کے بدلے کی آگ۔۔۔۔ جو کبھی نہیں بجھتی ہے ۔۔۔۔۔۔اور اس آگ کو کبھی بجھا بھی نہیں سکتا ہے ۔۔۔۔ بلوچوں کی ایک خاص بات یہ ہے کہ وہ کھانہ بنانے کے بعد آگ پہ پانی کبھی بھی نہیں بجھاتے ہے اور نہ جلتی آگ پہ پانی ڈالتے ہیں کیونکہ آگ پہ پانی ڈالنا رزق میں کمی سمجھا جاتا ہے جب تک انگارے خود نہ بجھ جائے تب تک پانی جلتی آگ پہ نہیں ڈالا جاتا ہے۔ اکثریتی بلوچ قبائل رات کو جلائی آگ پہ صبح کا ناشتہ بھی بناتے ہیں اور اس عمل کو گھر میں برکت سمجھتے ہیں ۔

اس روز کے بعد سخی صوبدار خان اور جبل خان کے قبائل کے لوگ ایک دوسرے کے خون کے پیاسی ہو جاتے ہیں اور ایک دوسرے کے بدلے کی آگ میں جلتے ہیں اور جنگ کی تیاریاں شروع کرتے ہیں۔ اور ایک بڑے میدان کا بھی انتخاب کرتے ہیں اور ایک دوسرے کا مقابلہ کرنے کے لیے اونٹ گھوڑے اور تلوار تیار کیے جاتے ہیں۔ سخی صوبدار دو ایسی تلواریں لاتے ہیں جس کے کنداق بھی سونے کےبنے ہوتے تھے ان دو تلواروں کے نام بھی رکھے جاتے ہیں ایک کا نام سسی اور دوسرے کا نام ماروی (سخی صوبدار کے تلوار کا نام سسی تھا جبکہ لھڑاں خان کے تلوار کا نام ماروی تھا) رکھے جاتے ہیں جبکہ سخی صوبدار خان بندوق بھی خریدتے ہیں جو ایک نالی بندوق ہے ( یہ پہلی بار بلوچستان میں استعمال ہونے جارہی ہے) اس کا بھی کنداق سونے کا بنا ہوا تھا اور دوسری جانب بگٹی قبائل کے لوگ بھی ہر قسم کے ہتھیار اکھٹے کرتے ہیں اور ساتھ میں میدان شہیدا کا بھی انتخاب بھی کرتے ہیں جہاں پہ مارو یا مر جاؤں، آر یا پار کا رسم دو بلوچ قبائل میں شروع ہونے جا رہا تھا۔ اگر کوئی چیز معلوم نہیں تھی تو وہ تھی جنگ کی تاریخ ۔ اسی میدان میں ہر روز سخی صوبدار خان اور لھڑاں اپنے اونٹ چرانے کے لیےلے جاتے تھے اور دشمن کے ساتھ جنگ کے انتظار میں تھے۔

اینٹیں نصب کرنے میں استعمال کیا گیا دودھ – مقامی دعویٰ

دونوں قبائل کے لوگ ایک دوسرے کے خون کے پیاسی ہو گئے تھے جبل خان کے رشتے داروں سمیت ان کے سردار بھی بدلے کی آگ میں جل رہے تھے۔ وہ جبل خان کے خون کا بدلہ لینے کیلئے تلوار اور لوگوں کو اکھٹے کرنے میں مصروف ہو گئے۔ چھ ماہ میں (نہ گیست) نو بیس یعنی ایک سو اسی لوگ اکھٹے کر لیے تھے۔ مرحوم جبل خان (بگٹی) کے قبیلے کے سربراہ نے ایک خط سخی صوبدار خان (جمالی) قبیلے کے سربراہ کو بھیجا کہ ہم اب آپ سے آمنے سامنے جنگ کے لئے تیار ہیں اور آپ کے علاقے میں جنگ کرنے فلا ں تاریخ کو آئیں گے۔ مگر کاشی (موت یا جنگ کی خبر پہنچانے والا) نے سخی صوبدار خان کے لیے آیا خط مقامی وڈیرے کو دے دیا جس نے وہ خط چھپا لی۔ تاکہ اچانک گھمسان کی جنگ ہو اور جنگی لاٹ(سپہ سالار ،کمانڈ ران چیف ) دونوں ختم ہو جائیں۔

سخی صوبدار خان نے اس وقت پہلی بار بندوق کا نام سنا تھا اور وہیں سے ایک نالی بندوق لیا جس کی قیمت دس اونٹوں کے برابر تھی یہ بندوق دیکھنے والوں کے لئے ایک عجیب چیز تھی۔ سب لوگ بندوق کی آواز سن کے پریشان ہو جاتے تھے کہ آخر یہ کس چیز کا نام ہے جس کی آواز کے ساتھ نشانہ بھی کرتا ہے نشانہ کرنے کے بعد آواز باہر گونجتی ہے۔ شروع شروع میں لوگ اس کی آواز سن کر اتنا خوفزدہ ہو جاتے تھے کہ نو ماہ کی حمل شدہ عورت دوران حمل عورتیں اپنا بچے تک بھی خوف سے گرا دیتی تھی۔ حتی کہ جو عورتیں حمل کے دوران سخت درد میں مبتلا ہوتی تھی ان کو ایک بیل گاڑی میں بٹھا کر بیلوں کو دوڑایا جاتا تھا اور سخی صوبدار کو بولا جاتا تھا ایک فائر دلیر بچے کے لیے کر دیں تاکہ وہ دنیا میں آ سکیں ۔ تو سخی صوبدار خان فائر کر دیتا تو بندوق کی آواز سن کر عورت خوف سے اپنا بچہ پیدا کر دیتی تھی پھر لوگ خوشی سے نہال ہوکر اونٹ یا بکرے کی قربانی کرکے غریب غربا میں تقسیم کر دیتے تھے اور ایک بکرا سخی صوبدار کو بھیجا جاتا تھا جس کا اوطاق میں سجی بنا کر سب دوست احباب آپس میں کھاتے تھے۔ اور بلوچی شاعر و شاعری کی محفل کی جاتی تھی جسے سننے کیلئے دور دور سے لوگ آتے تھے اور شاعری سننے میں مشغول ہوجاتے تھے گاؤں میں کسی بھی جنم گھٹی ( بچے کی پیدائش ) پہ بہت ساری خوشیاں منائی جاتی تھی جب سخی صوبدار خان کو شاہو خان پیدا ہوا تو اس نے اتنے جانوروں کی قربانی کی تھی کہ لوگ گوشت کھا کھا کے تنگ ہوگئے تھے ۔

بلوچ قوم نے ہمیشہ اپنے قول و فعل کی پاسداری کی ہے اس لیئے جب جنگ کا میدان سجایا جاتا تو سب سے پہلے سردار سپہ سالار کا کردار ادا کرتا تھا اور میدان جنگ کا جھنڈا اس کے ہاتھ میں ہوتا ہے۔ جب تلواروں کی جنگ ہوتی تھی تو اس جنگ میں تلواروں کے نام رکھے جاتے تھے جیسے سخی صوبدار کے تلوار کا نام سسی تھا جبکہ لھڑاں خان کی تلوار کا نام ماروی تھا اس کے چلانے کا انداز دیکھ کر لوگ آنکھیں ملتے رہتے تھے آخر یہ لوگ تلوار کیسے چلاتے ہیں حتیٰ کہ لھڑاں خان جانوروں کا شکار بھی ماروی سے کرتے تھے۔ جب وہ کسی بھی جانور کا شکار کرتے تھے تو ایک منٹ میں اس جانور کے دس ٹکڑوں میں بانٹ دیتے تھے۔ لھڑاں خان کے تلوار چلانے کا چرچہ دور دور تک مشہور تھا۔ لھڑاں خان اور سخی صوبدار خان یہ جانتے تھے کہ اب بگٹی قبائل کے لوگ جنگ کرنے ہمارے پاس ضرور آئیں گے اور تاریخ بتائیں گے اس لیے انہوں نے پہلے ہی جنگ کی مختصر تیاری کی ہوئی تھی۔ وہ ہمیشہ اونٹ چرانے لے جاتے تھے تو ہر طرف سے ایک بندہ کھڑا کرتے تھے تاکہ مد مقابل اشخاص کا مقابلہ آرام سے کیا جائے۔

اس روز صبح سویرے ایک طرف سے آندھی کی طرح ایک لشکر دیکھائی دے رہا تھا جو نہ گیست (ایک سو اسی) لوگوں پہ مشتمل قافلہ تھا۔ دوسری طرف صرف نو مردتھے ۔سخی صوبدار خان یہ دیکھ کے حیران رہ گیا تھا کہ آخر یہ لشکر بغیر بتائے کیسے جنگ میں آ رہا ہے ہمیشہ بلوچ قبائل کی جنگ بغیر بتائیں نہیں کی جاتی تھی۔ مگر یہ جنگ بغیر بتائے کی جارہی تھی ،مٹی کا طوفان اڑ رہا تھا۔ وہی پہ ایک بوڑھی عورت نار (کنویں سے بیلوں کے ساتھ پانی نکالنا) پہ کپڑے دھو رہی تھی بگٹی قوم کے سردار کو اس عورت نے للکار کے کہا۔۔۔(اے جوان بکھے روغے)اے جوانوں کہاں جار ہے ہو ۔۔۔۔۔۔ اتنی بڑی لشکر لیکر ۔۔۔۔ تو اس سردار نے گھوڑا روکا اور کہا بی بی آج جنگ ہے۔۔۔۔۔ آپ کے قبائل کے مردوں کے ساتھ۔۔۔۔۔ اچھا تو پتا ہے ۔۔۔۔سخی صوبدار خان اور لھڑاں خان اس لشکر کو جیتنے نہیں دے گے۔۔۔۔۔ سردار اے بلوچ عورت آپ اسی جگہ ٹھہرنا ہم جنگ جیت کے اسی جگہ آپ کو بتائیں گے کہ ہم اپنا بدلہ لیکر واپس جار ہے۔۔۔۔۔۔ اور جیت کا پرچم ہمارے ہاتھ میں ہوگا۔۔۔۔۔۔ اس عورت نے کپڑے دھوتے ہوئے کہا یہ جنگ بھی جنگ ہوگی جس کی جیت کا پتا واپسی پہ چلے گا لشکر آگے بڑھتاچلا جا رہا تھا۔۔۔۔۔۔ مٹی کا طوفان اونٹوں اور گھوڑوں کے پاؤں سے اڑتا جا رہا تھا۔

اب گھمسان کی لڑائی دو قبائل میں شروع ہونے جارہی تھی سخی صوبدار خان اور لھڑاں خان نے جب اچانک لشکر دیکھا تو حیران رہ گئے کہ یہ لوگ بغیر پیغام دیئے کیسے جنگ پہ آ گئے۔ میدان سج گیا ایک طرف نو لوگ دوسری طرف نہ گیست( ایک سو اسی ) لوگ آمنے سامنے تھے ۔ بگٹی قبائل کے سردار کو للکار کر سخی صوبدار نے کہا کہ ارے واہ جانی واہ ۔ آپ لوگ اتنے کمزور ہوگئے ہو بغیر بتائے جنگ کرنے آئے ہو، یہ تو مجھے آج پتا چلا ؟۔

ایک بلوچ ساربان ، اپنے اونٹ کے ساتھ

دوسری طرف سے آواز آئی کہ ہم نے تو جنگ کا پیغام کاشی (جنگ کا پیغام پہچانے والا)کے ساتھ بھیجا تھا۔

دوسری جانب سے سخی صوبدار خان کی آواز آئی کاشی نے ہمیں پیغام نہیں دیا ، اس لیے تو ہم اس میدان میں صرف نو لوگ آپ کے مد مقابل ہے مگر یاد کرو ہم نو لوگ آپ کی لشکر کو ایسے جیتنے نہیں دیں گے مقابلہ کانٹے کا ہوگا۔

مقابلہ شروع ہوتا ہے ۔ایک شخص آگے بڑھتا ہے سخی صوبدار بندوق چلاتا وہ وہی پہ ڈھیر ہوتا ہے۔۔۔۔ اسی طرح دس منٹ میں سخی صوبدار اپنی بندوق سے بیس لوگوں کو فائر کرکے مار دیتا ہے تو بیس لوگ ڈھیر ہو جاتے ہیں باقی ایک سو ساٹھ لوگوں کا مقابلہ نو لوگوں کے ساتھ ہوتا ہے۔

پھر اچانک خاموشی طاری ہوتی ہے بگٹی قبائل کے سردار کی آواز تیز گونجتی ہیں۔۔۔۔۔ ارے واہ سخی صوبدار خان اور لھڑا خان ہم جنگ لڑنے تلوار کے ساتھ آئے ہیں اور یہ آپ یہ کیا چیز لائے ہو جو دور دور سے ہمارے لوگوں کو نشانہ بنا رہا ہے اپنا یہ ہتھیار پھینک دو اور ہمارے ساتھ تلوار کی لڑائی لڑو تاکہ مقابلہ برابری کا ہو۔

بندوق پھینکتے ہی سخی صوبدار خان ماروی تلوار نکالتا ہے ۔ اس موقع پر سخی صوبدار خان کے دو لوگ ایک سو ساٹھ لوگوں کو دیکھ کہ بھاگ جاتے ہے جن پہ بلوچی میں آج بھی شاعری موجود ہے پھر بھائی خان سخی صوبدار خان کو کہتا ہے کہ ’’زندگی اور موت اللہ کے ہاتھ میں ہے جو سرخ سالن کھاتے تھے، وہ بھاگ گئے ہے ہمیں ان کی کوئی فکر نہیں ہے شاید وہ لوگ یہ سمجھ کہ بھاگ گئے کہ ہم جنگ ہار جائیں گے مگر ہم مقابلہ کریں گے، جیت ہار میرے رب کے ہاتھ میں ہے۔

مقابلہ دوبارہ شروع ہوا لوگوں کا قافلہ تلواروں کے نیچے آ رہا تھا لوگ مر رہے تھے سخی صوبدار خان اور لھڑاں خان کے تلوار سے ایک پلک جھپک میں دو دو لوگ اپنے گھوڑوں سے نیچے گر رہے تھے لشکر لٹ رہا تھا لوگ اونٹوں کے نیچے آ رہے تھے گھوڑے مر رہے تھے۔

چوکوری قبرستان کا ایک منظر

اچانک ایک شخص لھڑاں خان کو پیچھے سے وار کرتا ہے اور لھڑاں خان پیچھے مڑ کر اس شخص کا سر دھڑ سے جدا کر دیتا ہے اور کہتا ہے جنگ ہمیشہ آمنے سامنے سے لڑی جاتی ہے۔ وہ اپنا پگڑی اس زخم پہ باندھ کے دوبارہ جنگ میں داخل ہوتا ہے سب لوگ اس کی بہادری دیکھ کر حیران رہ جاتے ہیں اور سات لوگوں کا لشکر ،مد مقابل کے لشکر میں بھی صرف ساٹھ لوگ رہ گئے ہیں ۔

سات لوگ ایک طرف دوسری جانب ساٹھ لوگ ۔۔۔مقابلہ سخت تھا اونٹ گھوڑے میدان جنگ میں دوڑھ رہے تھے لاشیں جگہ جگہ پہ بکھری پڑی تھی اچانک ایک شخص کی تیز تلوار سخی صوبدار خان کے پیٹ سے آر پار کر جاتا ہے تو بگٹی قبائل کے سردار سمیت سب کی آواز گونجتی ہے کہ جمالی سردار کو تلوار لگی ہے ۔ اس موقع پر لھڑاں خان ہوش و حواس کھو دیتا ہے ۔ اسے کچھ پتا نہیں چلتا کہ وہ کتنے لوگوں کو میدانِ جنگ میں مار رہا ہے ۔اچانک اس کی پیٹھ میں ایک ساتھ دو تلوار گھنپ جاتے ہیں اور وہ زمیں پر گر جاتا ہے ۔سخی صوبدار خان یہ منظر دیکھ کر بہت افسردہ ہوتا ہے۔ ایسے میں بگٹی قبائل کا سردار سخی صوبدار کے پاس آتا ہے اور کہتا ہے اب اپنی ہار مان لو اور تلوار مجھے دے دو۔ صوبدار خان جواب دیتا ہے کہ ہمت ہے تو خود تلوار لے لو کیونکہ بلوچ قوم میں تلوار(ماروی) کی بڑی عزت ہے اور میں یہ عزت زمیں پہ نہیں رکھ سکتا ہوں۔ جیسے ہی وہ آگے بڑھتا ہے سخی صوبدار خان اپنی پیاری تلوار(ماروی) گھماتا ہے کہ بگٹی قبائل کے سردار کا سر قلم ہوجاتا ہے اور سخی صوبدار خان بولتا ہے۔اب ہوا حساب ہو برابر ۔ اب لے جاؤ اپنے سردار کو اور کوئی پوچھے تو کہنا کہ سخی صوبدار خان مارا ہے ۔سب لوگ سخی صوبدار خان کی طرف دیکھ رہے تھے اوراس کی بہادری پہ سلام دل ہی دل میں پیش کر رہے تھے۔ اس دوران بگٹی قبائل کے نو لوگ بچ جاتے ہیں اور باقی بگٹی اور جمالی قبائل کے تمام لوگ وہیں شہید ہو جاتے ہیں۔ اس لئے اس جنگ زدہ علاقے کو شہیدا کے نام سے آج تک پکارا جاتا ہے جہاں پہ ایک سو اکہتر لوگ دونوں قبیلے کے شہید ہوئے تھے ۔

لھڑا خان کا مقبرہ

جنگ ختم ہوگئی ۔۔۔ بگٹی قبائل کے لوگوں نے تمام شہیدوں کو وہیں پہ دفن کیا اور اپنے سردار کی لاش واپس لے جارہے تھے وہی عورت نار پہ کپڑے دھو رہی تھی اور بگٹی قبائل کے لوگوں نے اس سے کہا ۔۔دیکھویہ سخی صوبدار خان اور لھڑاں خان کی تلوار سسی اور ماروی ہے۔ ان کو ہم نے شکست دے دی ہے ۔وہ عورت بولتی ہے کہ اس اونٹ پہ کیا لدا ہوا لے جا رہے ہو۔ اس شخص نے کہا ۔اس پہ ہمارے سردار کی لاش ہے۔۔تو وہ عورت ہنستے ہوئے بولی سردار گنوا کے اور جیت کا پرچم لہرا رہے ہو۔ یہ آپ کی ہار ہے ہار، سب لوگ خاموش ہو کر ایک دوسرے کی طرف دیکھنے لگتے ہیں اور آگے بڑھنے لگے۔

آج بھی لھڑاں خان مقبرہ سمیجی میں موجود ہے جو ابھی تک قائم ہے جبکہ سخی صوبدار کا مقبرہ شہیدا میں تھا جو گزشتہ مسلسل سیلابوں کی وجہ سے گر گیا ہے جس کے نشانات آج بھی موجود ہیں۔ آج بھی جمالی قبیلے کا کوئی بچہ جب بولنے لگتا ہے تو اسے جنگ آزمود بلوچستان کی یہ اہم داستان سنائی جاتی ہے تاکہ بچہ بڑا ہوکر دلیر بنے ۔

صوبدار خان کے منہدم شدہ مقبرے کے آثار

 

Comments

- Advertisement -