تازہ ترین

بابر اعظم کو دوبارہ قومی ٹیم کا کپتان بنانے کا فیصلہ ہو گیا

پاکستان کرکٹ بورڈ نے بابر اعظم کو ایک بار...

چین پاکستان معاہدوں کے حوالے سے آئی ایم ایف کا اہم بیان

عالمی مالیاتی ادارے کا کہنا ہے کہ چین پاکستان...

جون تک پی آئی اے کی نجکاری کا عمل مکمل کرلیا جائے گا، وفاقی وزیر خزانہ

کراچی : وزیرخزانہ محمداورنگزیب کا کہنا ہے کہ پی...

پاکستان نے دورے کی دعوت دی تو اسے ضرور قبول کریں گے، افغان طالبان

دوحہ : افغان طالبان کا کہنا ہے کہ پاکستان نے دورے کی دعوت دی تو اسے ضرور قبول کریں گے اور وزیراعظم عمران خان سے بھی ملیں گے، وزیراعظم نے امریکی دورے میں کہا تھا طالبان سے ملیں گے۔

تفصیلات کے مطابق قطر کے دارالحکومت دوحہ میں طالبان کے سیاسی دفتر کے ترجمان سہیل شاہین نے برطانوی خبر رساں ادارے سے فون پر گفتگو کرتے ہوئے کہا کی پاکستان نے دورے کی دعوت دی تو اسے قبول کرلیں گے، دورےکی دعوت ملی تووزیراعظم عمران خان سےبھی ملیں گے۔

ترجمان افغان طالبان کا کہنا تھا وزیراعظم نےامریکی دورےمیں کہا تھاطالبان سےملیں گے اور طالبان کوکہیں گےافغان حکومت سےمذاکرات کریں ، ہم تو خطے اور ہمسایہ ممالک کے دورے وقتاً فوقتاً کرتے ہیں تو اگر ہمیں پاکستان کی طرف سے رسمی دعوت ملتی ہے، تو ہم جائیں گے کیونکہ پاکستان بھی ہمارا ہمسایہ اور مسلمان ملک ہے۔

اس سوال کے جواب میں کہ طالبان پر تو پہلے سے ہی یہ الزامات ہیں کہ وہ پاکستان کی پراکسی ہیں، تو کیا اس دورے سے افغانستان کے اندر اور باہر ان پر مزید الزامات نہیں لگیں گے؟ جس پر سہیل شاہین کا کہنا تھا وہ لوگ جن کے پاس طالبان کے خلاف جھگڑے کے لیے کوئی اور دلیل نہیں وہی ان پر اس قسم کے الزامات لگائیں گے، ماضی میں بھی لگا چکے ہیں اور مستقبل میں بھی لگاتے رہیں گے۔

ترجمان نے کہاکہ ایک تو ہمارے اسلامی اور قومی مفاد ہیں، جس میں ہم کسی کو بھی مداخلت نہیں کرنے دیتے ہیں، البتہ جہاں تک دوسرے ممالک یا پھر ہمسایہ ممالک کے ساتھ رابطے قائم کرنے کا سلسلہ ہے، ان کے ساتھ تو ہمارے رابطے ہیں بھی اور ہم چاہتے بھی ہیں۔

افغان طالبان کا کہنا تھا ہم نے افغانستان کے مسئلے کو دو مرحلوں میں تقسیم کیا ہے، ایک بیرونی اور دوسرا اندرونی، پہلے مرحلے میں جاری مذاکرات اب اختتامی مرحلے میں داخل ہو گئے ہیں۔ اگر یہ مذاکرات کامیاب ہوجاتے ہیں، تو پھر ہم دوسرے مرحلے میں تمام افغان فریقین سے بات چیت کریں گے، جس میں افغان حکومت بھی ایک فریق کی حیثیت سے شامل ہوسکتی ہے۔

سہیل شاہین نے کہا ہم نے امریکا کے ساتھ پہلے بھی گرفتار ساتھیوں کی رہائی کے لیے قیدیوں کے تبادلے کئے ہیں اور اب بھی کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ اس میں اگر کوئی کچھ کردار کرنا چاہتا ہے تو یہ اچھی بات ہے۔

یاد رہے عمران خان نے امریکی انسٹیٹیوٹ آف پیس سے خطاب کرتے ہوئے کہا تھا کہ دہشت گردی کیخلاف جنگ میں ہم نے70ہزار جانیں قربان کی ہیں،70ہزار قربانیوں کے باوجود پاکستان اور امریکا میں بداعتمادی کی فضا برقرار رہی۔ دہشت گردی کیخلاف جنگ میں اس سے بڑی قربانیاں نہیں ہوسکتیں، پاکستانی عوام سمجھتے رہے کہ وہ امریکی جنگ لڑرہے ہیں۔

ان کا کہنا تھا افغان جنگ کی ہم نے بہت بھاری قیمت ادا کی، اتنی قربانیوں کے بعد بھی امریکا کا خیال تھا کہ ہم کام نہیں کررہے، حیران ہوں کی امریکا کی اہم شخصیات کو پاکستان اور افغانستان کے قبائلی علاقوں کا درست اندازہ نہیں ہے، امید کرتا ہوں کہ طالبان اور امریکا کے درمیان بات چیت سے حل نکلے گا، افغان مسئلے کے پائیدار حل کیلئے مزید وقت درکار ہوگا۔

Comments

- Advertisement -