وفاقی جمہوریہ جرمنی کا دارُالحکومت برلن اپنی تاریخ و ثقافت، فنونِ لطیفہ کی قدر دانی اور میلوں ٹھیلوں کے انعقاد کے لیے بھی مشہور ہے۔
تاریخ اٹھا کر دیکھیں تو جرمنی دنیا میں ہٹلر اور نازی ازم کے ساتھ یوارِ برلن کے لیے مشہور و بدنام ہوا۔ یہ شہر اپنی مختلف تاریخی عمارتوں اور اُن یادگاروں کے لیے بھی پہچانا جاتا ہے جن کا تعلق زمانۂ جنگ اور قتل و غارت گری سے ہے۔ یہاں ہم ایک ایسے ملبے کے ڈھیر کا تذکرہ کررہے ہیں جو دوسری جنگِ عظیم کی تباہی اور ہولناکی کا ایک نشان ہے۔
اسے پہاڑی کہا جاسکتا ہے، جو شہر کے وسط میں موجود ہے اور تقریباً 400 فٹ بلند ہے۔ یہ دراصل اُن شان دار عمارتوں کا ملبا ہے جنھیں دوسری جنگِ عظیم کے دوران اتحادی طیّاروں کی بم باری اور فوجی ٹینکوں سے داغے گئے بارود نے پتّھروں کا ڈھیر بنا دیا تھا۔ اس ملبے پر بارود سے تباہ ہونے والی ایک عمارت کا ڈھانچا بھی نظر آتا ہے۔
برلن کا رخ کرنے والے سیّاحت اس پہاڑی کو ضرور دیکھنے جاتے ہیں۔ اس زمانے میں جنگ میں خوب تباہی مچانے والے برطانیہ کی فضائیہ کے سربراہ سر آرتھر ٹیڈر نے برلن کے حوالے سے دعویٰ کیا تھا کہ’’یہ شہر دوبارہ آباد نہیں ہو سکتا۔‘‘
وقت نے آرتھر کا یہ دعویٰ غلط ثابت کردیا اور شہریوں نے برلن کو نہ صرف دوبارہ تعمیر کیا بلکہ دنیا بالخصوص یورپ میں اسے ہر لحاظ سے شان دار اور ترقّی یافتہ شہر بنا کے چھوڑا۔ آج برلن بین الاقوامی شہرت کا حامل ایسا شہر ہے جو علم و فنون میں آگے اور اپنی ثقافت میں متنوع ہے۔
تاریخ کے اوراق الٹیں تو معلوم ہو گاکہ 1871ء میں اس شہر کو جرمنی کا دارُالحکومت تسلیم کرتے ہوئے اسے دیگر صوبوں کے مقابلے میں امتیاز و اعزاز بخشا گیا تھا۔
1940ء سے 1990ء تک برلن دو حصّوں میں منقسم رہا۔ ایک دیوار نے کئی لوگوں کو ایک دوسرے سے دور رکھا اور پھر وقت نے سیاست اور طاقت کی بنیاد پر کی گئی اس تقسیم کو مسترد کردیا۔ دیوارِ برلن گرا دی گئی اور یہ شہر دوبارہ نئی ریاست کا دارُالحکومت بنا اور تجارت، معشیت، صنعت و حرفت، سائنس سے لے کر ادب تک ہر شعبے میں بے مثال ترقّی کی۔