تازہ ترین

ایرانی صدر کی مزار اقبال پر حاضری، پھول چڑھائے اور فاتحہ خوانی کی

لاہور: ایران کے صدر ابراہیم رئیسی کی لاہور آمد...

پاک ایران سرحد پر باہمی رابطے مضبوط کرنے کی ضرورت ہے، آرمی چیف

راولپنڈی: آرمی چیف جنرل عاصم منیر کا کہنا ہے...

پی ٹی آئی دورِحکومت کی کابینہ ارکان کے نام ای سی ایل سے خارج

وفاقی حکومت نے پی ٹی آئی دورِحکومت کی وفاقی...

پرتگالی ’’سیام‘‘ سے کچھ حاصل نہ کرسکے!

تاریخ کے مطابق تھائی، چائنا کے جنوب مغرب میں رہنے والی قوم ہے۔ اقوامِ عالم میں طویل عرصہ تک ’’سیام‘‘ کے نام سے پہچانی جاتی تھی۔ سیام سنسکرت زبان کا لفظ ہے جس کا مطلب ہے ’’شوخ‘‘ یا ’’بھورا۔‘‘

مشرقِ بعید میں رہنے والی دوسری اقوام کے مقابلے میں ان کی رنگت قدرے شوخ اور بھوری ہوتی ہے۔ چینی سیام کو ’’سیان‘‘ بولتے ہیں۔ تاریخ کے مطالعے سے پتہ چلتا ہے کہ اقوامِ عالم میں سب سے پہلے پرتگالیوں نے اس لفظ کا استعمال کیا تھا۔ ایسٹ انڈیا کمپنی کی طرح پرتگالیوں نے بھی سترھویں صدی کے اوائل میں سفارتی مشن بھیجا، مگر انگریز کے لیے جیسی سونے کی چڑیا ہندوستان ثابت ہوا، سیام سے پرتگالیوں کو کچھ نہ ملا۔

زمانۂ قدیم سے یہ علاقہ چھوٹی چھوٹی ریاستوں میں منقسم رہا۔ چنگ سین ایوٹایا، چنگ مائی، لانا اور سوکھ تائی، یہ ریاستیں قدیم زمانے سے ایک دوسرے سے دست و گریباں اور قریبی ریاستوں ویت نام اور برما کے لیے دردِ سر بنی رہیں۔ 1767ء میں برمیوں نے ایوٹایا کی چار سو سال سے قائم ریاست پر حملہ کر دیا۔ دارالحکومت کو گویا آگ لگا دی۔ ہزاروں لوگوں کو موت کے گھاٹ اتار دیا اور اپنی عمل داری قائم کی۔

1769ء میں جنرل تاکسن نے بچی کھچی ریاست کو دوبارہ منظّم کیا۔ تون بری کو نیا دارالخلافہ بنایا اور خود جنرل تاکسن سے کنگ تاکسن دی گریٹ بنا، تیرہ سالہ حکم رانی میں جنرل کو اندرونی خلفشار، بیرونی سازشوں اور مسلسل جنگی حالات نے ذہنی طور پر مفلوج کر دیا۔ پاگل پن کے دورے پڑنے شروع ہوئے اور آخر کار راہب کا لبادہ اوڑھ کر جنگل کی طرف بھاگ گیا اور اس کے بعد کہیں نظر نہ آیا۔

1782ء میں جنرل چکری نے اُن کی جگہ لی۔ خود کو راما کا خطاب دیا اور یوں چکری خاندان کی بادشاہت کی داغ بیل ڈالی۔ اسی سال چاؤ پریا نامی دریا کے دونوں کناروں کو پختہ کرکے نئی بستی بسائی اور پھر اس کو دارالحکومت کا درجہ دے کر بنکاک کے نام سے موسوم کیا۔ 1790ء میں برمیوں کو شکست دی اور اپنی بادشاہت قائم کر لی۔

سترھویں اور اٹھارویں صدی میں جب مغربی اقوام نے باقی دنیا پر اپنی حکم رانی کے شکنجے کسے اور جگہ جگہ اپنی کالونیاں قائم کیں تو مشرقِ بعید بھی ان کے طوقِ غلامی سے محفوظ نہ رہا۔ برطانوی اور فرانسیسی افواج نے جب یہاں کا رُخ کیا تو تھائی لینڈ پر قبضے سے دونوں نے اجتناب برتا اور اس کو بفرزون بنایا تاکہ دونوں افواج کی آپس میں مڈبھیڑ نہ ہو۔ دوسری جنگِ عظیم کے خاتمے کے تیس سال بعد 1973ء میں عوام کو حکومت بنانے کا موقع دیا گیا۔

(الطاف یوسف زئی کے سفر نامے کا ایک ورق)

Comments

- Advertisement -