صحرا میں رہنے والے افراد ‘ یا وہ لوگ جنہوں نے صحرا کا مشاہدہ کیا ہو‘ جانتے ہیں کہ صحرا کا آسماں دن میں خوبصورت نیلا اور رات میں روشن اور چمک دار ہوتا ہے۔ ریت کے سنہرے ذروں کی طرح یہ آسمان بھی اپنے اندر بے پناہ کشش رکھتا ہے لیکن کوئلے سے بجلی بنانے والے پلانٹ کے سبب صحرائے تھر کے رہنے والے بہت جلد اپنے اس حسین آسمان سے محروم ہونے والے ہیں۔
سندھ حکومت‘ اینگرو انرجی ‘ اورچین کے اشتراک سے صحرائے تھر میں موجود کوئلے کے عظیم ذخائرکو زمین کی تہہ سے باہر نکال لانے کے منصوبے پرگزشتہ سال اپریل سے زورو شور سے کام جاری ہے اور ساتھ ہی ساتھ 330 میگاواٹ کے دو پاور پلانٹ کی تعمیر بھی اپنے عروج پر ہے جہاں سے2019 کے وسط تک کل 660 میگاواٹ بجلی پیدا ہونا شروع ہوجائے گی اور سندھ اینگرو کول مائننگ کمپنی کا کہنا ہے کہ 2025 تک یہ پراجیکٹ چار ہزار میگا واٹ بجلی پیدا کرنے کی استعداد کا حامل ہوجائے گا۔
اس کا مطلب یہ ہے کہ ایک جانب تھر کاخوبصورت آسمان کوئلے کے دھویں سے گہنا کر بہت جلد سرمئی رنگت اختیار کرنے والا ہے تو دوسری جانب کوئلے کی کانوں سے خارج ہونے والی میتھین گیس بھی اس علاقے میں بڑے پیمانے پر تباہی پھیلانے کو پر تول رہی ہے جس میں سب سے پہلےتھر کی پہلے سے تباہ شدہ زراعت سرفہرست ہے۔
تھرکول انرجی اورماحولیاتی آلودگی کا خطرہ
گزشتہ دنوں پیشہ ورانہ مصروفیات کے سلسلے میں تھر کول فیلڈ کا دورہ کیا اور کمپنی کےترجمان سے ملاقات کی جس کے دوران کئی اہم امور زیرِگفتگو آئے جنہیں تلخیص کے ساتھ آپ کی خدمت میں گوش گذار کیا جارہا ہے۔
سندھ اینگرو کول انرجی کمپنی کا دعویٰ ہے کہ انہوں نے اس پلانٹ کی تعمیر میں نہ صرف یہ کہ حکومتِ پاکستان کے بنائے ہوئے تمام تر معیارات کی پاسداری کی ہے بلکہ ایک قدم آگے بڑھتے ہوئے بین الاقوامی سطح پر اٹھائے جانے والے اقدامات کو بھی پیشِ نظر رکھا ہے۔
کمپنی کے ترجمان کے مطابق ماحولیات کے تحفظ کو یقینی بنانے کے لیے کئی اقدامات کیے جارہے ہیں ‘ سب سے پہلے تو ملین ٹری پراجیکٹ شروع کیا گیا ہے جس کے تحت سائٹ کی زد میں آنے والے ایک درخت کے بدلے 10 مقامی درخت لگائیں جائیں گے ۔
گیس کے اخراج کے لیے 180 میٹر بلند ایک اسٹیک تعمیر کی جارہی ہے جو کہ ایجنسی برائے تحفظ ماحولیات سندھ کے طے کردہ معیار یعنی 120 میٹر سے کہیں زیادہ ہے۔ گویا یہ زہریلا دھواں بہت اوپر جا کر خارج ہوگا تاہم تب بھی یہ فضا میں موجود رہے گا۔
یہ بھی بتایا جا رہا ہے کہ گیس کو خارج کرنے سے پہلے پانی کے ذریعے ٹھنڈا کیا جائے گا اور میتھین گیس جو کہ ماحول کے لیے سخت تباہ کن گیس ہے، کے خطرات کو چونے کے استعمال سے کم سے کم کیا جائے گا۔
اقدامات اوران پرخدشات
اوپر بیان کیے گئے اقدامات سن کر ایک جانب تو محسوس ہوتا ہے کہ کوئلے کا یہ پلانٹ ماحول کو زیادہ متاثر نہیں کرے گا جیسا کہ کمپنی کا دعویٰ ہے کہ ہوا میں میتھین کی مقدار ایک فیصد کے اندر ہی رہے گی جو کہ عالمی معیار کے مطابق ہے تاہم جب ان سارے معاملات کا تنقیدی نظر سے جائزہ لیا جائے تو ایسا محسوس ہوتا ہے کہ سب کچھ ویسے ہی ممکن نہیں ہو پائے گا جیسا کہ بتایا جارہا ہے۔
کاربن ڈائی آکسائیڈ کا آسیب
سب سے خطرناک بات فضا میں کاربن ڈائی آکسائیڈ کا اخراج ہے جس کے حوالے سے تاحال کوئی حکمت عملی سامنے نہیں آئی ہے۔ یاد رہے کہ کاربن ڈائی آکسائیڈ اس وقت گلوبل وارمنگ کے لیے سب سے بڑا خطرہ قرار دیا جاچکا ہے اور دنیا کے کئی ممالک اسے یونہی ہوا میں کھلا چھوڑ دینے کے بجائے اسے محفوظ طریقے سے تلف کرنے کے طریقے ڈھونڈر ہے ہیں۔
اس سلسلے میں ایک تجربہ امریکا کی یونیورسٹی آف کیلیفورنیا، لاس اینجلس یعنی یو سی ایل اے میں کیا گیا جہاں کاربن سے کنکریٹ تیار کر کے اسے تعمیراتی کاموں میں استعمال کرنے کے تجربے کیے جارہے ہیں۔ اس کو ’سی او ٹو کریٹ ‘ کا نام دیا گیا ہے۔
دوسری جانب آئس لینڈ کے ہیل شیڈی پلانٹ میں کچھ سال قبل ’کارب فکس‘ نامی پراجیکٹ شروع کیا گیاجس کے تحت کاربن کو سفید ٹھوس پتھر میں تبدیل کیا جارہا ہے۔ یہ پلانٹ آئس لینڈ کےدارالحکومت کو بجلی بھی فراہم کرتا ہےاورسالانہ 40 ہزار ٹن کاربن ڈائی آکسائیڈ پیدا کرتا ہے۔ 2012 میں یہاں 250 ٹن کاربن کو پانی کے ساتھ زیر زمین پمپ کرنے کا عمل شروع کیاگیا اور اب وہ سالانہ 10 ہزار ٹن کاربن زیر زمین پمپ کرنے پر کام کر رہے ہیں۔
سائنسدانوں کا خیال ہے کہ زمین کے لیے نقصان دہ مائع کو ٹھوس بنانے میں کئی سو یا کئی ہزار سال لگ سکتے ہیں تاہم اب تک جو بھی مائع زیر زمین پمپ کیا جاچکا ہے اس کا 95 فیصد حصہ 2 سال میں سفید پتھر میں تبدیل ہوچکا ہے۔
ملین ٹری پراجیکٹ
اب ایک نظر ڈالتے ہیں ملین ٹری پراجیکٹ پر۔ تھر کول منصوبے پر گزشتہ 16 ماہ سے کام جاری ہے لیکن شجر کاری کے لیے درخت محض چند دن قبل ہی لگائیں گئے ہیں یعنی کہ جس وقت پلانٹ دھواں اگلنا شروع کرے گا اس وقت تک یہ درخت اس قابل نہیں ہوں گے کہ ہوا میں بڑھتی ہوئی کاربن ڈائی آکسائیڈ کو جذب کرسکیں۔
دوسری اور اہم بات یہ ہے کہ اس بات کی یقین دہانی کون کروائے گا کہ ایک کے بدلے جو 10 درخت لگائیں جارہے ان کی بھرپور نگہداشت کی جائے گی اور وہ صحرا کی موسمی سختیوں اور خشک سالی کا شکار ہوکر محض کاغذوں کا حصہ بن کر نہیں رہ جائیں گے۔
میتھین گیس: ہوا میں موجود بم
کوئلے کے بند کان میں اگر میتھین گیس کو کنٹرول کرنا مشکل ہے تو میں یہ سمجھنے سے قاصر ہوں کہ تاحدِ نظر وسیع و عریض رقبے پر پھیلی ہوئی کوئلے کی کان جو کہ 86 میٹر گہرائی تک کھودی جاچکی ہے اور اسے 140 میٹر گہرائی تک جانا ہے، اس وسیع و عریض رقبے پر میتھین گیس کو کنٹرول کرنا کیسے ممکن بنایا جائے گا؟ اس کا جواب فی الحال کمپنی کے ترجمان اور سائٹ پر کام کرنے والے مقامی انجینئر کے پاس نہیں تھا سوائے اس کے کہ ہم اسے لائم اسٹون (چونے ) سے ٹریٹ کرکے ہوا میں چھوڑیں گے۔
یہ بھی کہا جارہا ہے کہ پلانٹ کی کولنگ اور گرین ہاؤس گیسز کی ٹریٹمنٹ کے لیے پانی کا استعمال کیا جائے گا جس کے لیے ایک نہر بھی تھر تک لائی جارہی ہے اور اس پر تعمیر کا کام تیزی سے جاری ہے۔ اب تک کی تحقیقات کے مطابق میتھین گیس پانی پر اس صورت اثرانداز نہیں ہوتی کہ وہ انسانی صحت کے لیے نقصان دہ بنے یا اس کے استعمال سے انسانی جسم کو کسی قسم کا نقصان پہنچنے کا احتمال ہو۔
لیکن امریکی ریاست مینی سوٹا کے محکمہ صحت کی جانب سےشائع کردہ معلوماتی مضمون میں کہا گیا ہے کہ ’’ اب تک کی تحقیق کے مطابق میتھین انسانی جسم کو کسی قسم کا فوری یا دور رس نقصان نہیں پہنچاتی تاہم اس سلسلےمیں بہت کم تحقیق کی گئی ہے اور اس حوالے سے مزید کام کرنے کی ضرورت ہے‘‘۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ استعمال شدہ پانی کے بعد کے استعمال پر نظرررکھی جائے اور اگر اس سے مقامی آبادی یا ماحول کو کسی بھی صورت نقصان پہنچنے کا اندیشہ ہو تو اس کا فی الفور سدِ باب کیا جائے۔
ماہرانہ رائے
اس حوالے سے وفاقی اردو یونی ورسٹی کے شعبہ کیمسٹری کے سابق سربراہ ڈاکٹر معین احمد صدیقی سے رائے لی گئی۔ ڈاکٹر معین کولمبیا یونیورسٹی میں وزٹنگ پروفیسر کی حیثیت سے اپنی خدمات پیش کرتے رہے ہیں۔ اس کے علاوہ کلائمٹولوجی اور پاکستانی جنگلات پر بے شمار تحقیقاتی مقالے بھی لکھ چکے ہیں۔
ڈاکٹر معین کے مطابق جدید دنیا میں ایسے طریقے موجود ہیں جن میں میتھین اور دیگر گرین ہاؤس گیسز سے درپیش خدشات کا سدِ باب کیا جاتا ہے تاہم اس حوالے نظر رکھنے کی ضرورت ہے کہ آیا ان اقدامات پر عمل کیا جارہا ہے یا نہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ اٹلی میں جب کوئلے سے بجلی بنانے کا عمل شروع کیا تو وہاں زلزلے بھی آئے تھے جن کا سبب بھی زیرِ زمین گرین ہاؤ س گیسز کا اخراج تھا۔ ڈاکٹر معین احمد نے مزید کہا کہ ایسا نہیں ہے کہ کوئلے سے پیدا ہونے والی آلودگی کا سدباب نہیں کیا جاسکتا۔ ایک طریقہ یہ بھی ہے کہ کیمیکل ری ایکشن کے ذریعے گیس کی ہیئت تبدیل کردی جاتی ہے جس کے بعد وہ ماحول اور اوزون کے لیے نقصان دہ ثابت نہیں ہوتی۔
پاکستان کو ماحولیاتی تبدیلیوں سے درپیش مسائل
یہاں یہ بات بھی یاد رکھنا ضروری ہے کہ عالمی ماحولیاتی آلودگی کی شرح میں پاکستان کا حصہ محض 0.43 فیصد ہے لیکن پاکستان ماحولیاتی تبدیلیوں سے سب سے زیادہ متاثر ہونے والا ملک ہے۔ یہاں تیزی سے بڑھتی ہوئی گرمی‘ حد سے زیادہ بارشیں‘ کچھ علاقوں میں بارش کا بالکل نہ ہونا‘ سیلاب اور سمندروں کی حدود تبدیل ہونا یہ وہ سب عوامل ہیں جو مشترکہ طور پر پاکستان کو شدید ترین نقصان پہنچا رہے ہیں جن میں ملک کی مجموعی پیداوار (جی ڈی پی) کو پہنچے والا سالانہ 3 فیصد کا نقصان بھی شامل ہے جو کہ دہشت گردی سے پہنچنے والے نقصان یعنی سالانہ 2 فیصد سے زیادہ ہے۔
لہذا تاریخ کے اس مشکل ترین موڑپرپاکستان کسی بھی صورت اپنے ماحول کو نقصان پہنچانے کا رسک نہیں لے سکتا۔ اسی سبب پاکستان پائیدار ترقیاتی اہداف برائے 2030 کا حصہ بھی ہے جس کے طے کردہ کل 17 اہداف میں سے 6 براہ راست ماحولیات سے متعلق ہیں جبکہ باقی بھی کسی نہ کسی صورت ماحولیات تبدیلیوں کو پیشِ نظر رکھ کر مرتب کیے گئے ہیں۔
اگرآپ کو یہ خبر پسند نہیں آئی تو برائے مہربانی نیچے کمنٹس میں اپنی رائے کا اظہار کریں اوراگرآپ کو یہ مضمون پسند آیا ہے تو اسے اپنی فیس بک وال پرشیئرکریں۔