کراچی : سندھ کا تاریخی شہر ٹھٹہ کراچی سے 110کلومیٹر کے فاصلے پر قائم ہے یہ شہر ایک زمانے میں علم و فن شاعری، لوک داستانوں اور تجارت کا بڑا مرکز تھا لیکن مختلف ادوار میں یہاں آنے حکمرانوں نے اس تاریخی شاہکار کو بھی اپنی روائتی بے حسی کا شکار بنا ڈالا۔
ٹھٹہ رقبے کے لحاظ سے تھرپارکر کے بعد سندھ کا دوسرا بڑا ضلع بن گیا ہے، اس وقت ضلع ٹھٹہ کا رقبہ17ہزار355 مربع کلومیٹر ہے۔ضلع ٹھٹہ میں کئی جھیلیں واقع ہیں جہاں سے ملحقہ شہروں خصوصاً کراچی کی میٹھے پانی کی ضروریات پوری کی جاتی ہیں، ان جھیلوں میں کینجھر اور ہالیجی قومی سطح پر معروف حیثیت رکھتی ہیں۔
ماضی میں جس ٹھٹہ کا مقابلہ ترقی یافتہ شہروں سے کیا جاتا تھا، آج وہ ٹھٹہ وقت کے ظالم قدموں کے نیچے روند دیا گیا، اور دکھ کا ایک سوالیہ نشان بن کر رہ گیا۔
کروڑوں روپے کے بجٹ کے باوجود شہر کے قدیمی قبرستان مکلی کی تباہی اس کا مقدر بن چکی ہے، اس کے علاوہ دو کروڑ روپے کی لاگت سے تعمیر کیا گیا اسپورٹس کمپلیکس بند پڑا ہے، شہر میں سیوریج کا نظام سرے سے موجود ہی نہیں۔
پورے شہر کی غلاظت اور گندگی نہروں میں ڈالی جارہی ہے جس کی وجہ سے شہری گندہ پانی پینے پر مجبور ہیں، پانچ کروڑ روپے کی لاگت سے بننے والی پانی کی ٹنکی تعمیر کے بعد ہی ناکارہ قرار دے دی گئی۔
ٹھٹہ میں بھی الیکشن 2018کے موقع پر کافی گہما گہمی نظر آرہی ہے، این اے232ٹھٹہ سے ملک کی اہم جماعتوں نے اپنے امیدوار کھڑے کیے ہیں جن میں پیپلزپارٹی، پی ٹی آئی اور ایم ایم اے شامل ہیں، اس حلقے میں پی پی پی امیدوار شمس النساء میمن، پی ٹی آئی کے رئیس ارسلان بروہی اور ایم ایم اے کے جاوید شاہ مدمقابل ہیں۔
اس حوالے سے اے آر وائی نیوز کے نمائندے کامل عارف نے ٹھٹہ کے مکینوں سے ملاقات کی اور ان کے مسائل معلوم کیے، ملاقات کے دوران اہم انکشافات سامنے آئے۔
خبر کے بارے میں اپنی رائے کا اظہار کمنٹس میں کریں‘مذکورہ معلومات کو زیادہ سے زیادہ لوگوں تک پہچانے کے لیے سوشل میڈیا پر شیئر کریں۔