تازہ ترین

حکومت کا ججز کے خط پر انکوائری کمیشن بنانے کا اعلان

اسلام آباد: وفاقی حکومت نے اسلام آباد ہائی کورٹ...

فوجی عدالتوں سے 15 سے 20 ملزمان کے رہا ہونے کا امکان

اسلام آباد : اٹارنی جنرل نے فوجی عدالتوں سے...

بھارت میں مسلم طلبہ کا مستقبل داؤ پر لگ گیا

بھارت کی مودی سرکار کی جانب سے یونیورسٹی طلبہ کے لیے مولانا آزاد فیلو شپ ختم کیے جانے کے بعد مسلم طلبہ کا مستقبل داؤ پر لگ گیا ہے۔

غیر ملکی میڈیا کے مطابق سابق بھارتی وزیر اعظم منموہن سنگھ کے دور حکومت میں قائم کی گئی سچر کمیٹی کی تجویز کردہ سفارشات کی روشنی میں 2009 میں مولانا آزاد فیلو شپ متعارف کرائی گئی تھی جو بھارت کی اقلیت مسلم، بودھ مت، عیسائی، جین مت، پارسی اور سکھ مذاہب سے تعلق رکھنے والے طالبعلموں کو فراہم کی جاتی تھی۔ اس فیلو شپ کو مودی کی متعصب حکومت نے بیک جنبش قلم ختم کردیا ہے۔

یہ فیلو شپ اگرچہ تمام اقلیتی برادریوں کے طالب علموں کے لیے دستیاب تھی تاہم اس سے زیادہ تر مسلمان طلبہ ہی مستفید ہوئے۔ وزارت اقلیتی امور کی جانب سے فراہم کردہ اعداد وشمار کے مطابق سن 2018-2019 میں یہ فیلوشپ حاصل کرنے والے 70 فیصد سے زائد طالب علم مسلمان تھے۔

بھارت میں مذہبی تنظیم جماعت اسلامی کی طلبہ تنظیم، اسٹوڈنٹس اسلامک آرگنائزیشن آف انڈیا کے نیشنل سکریٹری، فواد شاہین کے مطابق، ”کئی برسوں کے دوران اس فیلو شپ سے ہزاروں ایسے پسماندہ مسلمان طالب علم مستفید ہوئے جو دوسری صورت میں اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے سےقاصر ہی رہتے۔

اس حوالے سے وزیر برائے اقلیتی امور سمرتی ایرانی کا گزشتہ ماہ پارلیمنٹ میں ایک سوال کے جواب میں کہنا تھا کہ مولانا آزاد نیشنل فیلو شپ ”حکومت کی جانب سے اعلیٰ تعلیم کے لیے جاری کئی دیگر فیلوشپ اسکیموں کے ساتھ مماثلت رکھتی ہے اور اقلیتی طالب علموں کو پہلے ہی اس طرح کی کئی اسکیموں سے مدد مل رہی ہے۔

حکومت کی جانب سے اس گرانٹ کی منسوخی کے پیچھے دی جانے والی یہ وجہ کہ یہ فیلو شپ دیگر اسکیموں سے مماثلت رکھتی ہے پر سوال اٹھائے جا رہے ہیں۔

بھارتی وزیر خزانہ نرملا سیتارامن کے مطابق 31 مارچ 2022 سے قبل فیلو شپ کے لیے کوالیفائی کرنے والے طالب علم اس اسکیم سے اپنی باقی ماندہ تعلیمی مدت تک مستفید ہوتے رہیں گے تاہم اس کے باوجود اچانک اس گرانٹ کے خاتمے کے فیصلے نے بھارتی مسلمانوں میں کھلبلی مچا دی ہے۔

مودی حکومت کے اس فیصلے کے بعد کئی طلبہ تنظیمیں ملک بھر میں احتجاج کر رہی ہیں۔ کئی سیاسی رہنما اس معاملے کو پارلیمان میں اٹھاتے ہوئے حکومت سے اس فیصلے کی واپسی کا مطالبہ کر رہے ہیں۔ پارلیمانی رکن عمران پرتاب گڑہی نے مقامی میڈیا سے بات کرتے ہوئے اس حکومتی فیصلے کو اقلیت اور طالبعلموں کے خلاف قرار دیا اور کہا کہ اس سے ہزاروں افراد متاثر ہوں گے۔

Comments

- Advertisement -