تازہ ترین

مسلح افواج کو قوم کی حمایت حاصل ہے، آرمی چیف

راولپنڈی: آرمی چیف جنرل عاصم منیر کا کہنا ہے...

ملت ایکسپریس واقعہ : خاتون کی موت کے حوالے سے ترجمان ریلویز کا اہم بیان آگیا

ترجمان ریلویز بابر رضا کا ملت ایکسپریس واقعے میں...

صدرمملکت آصف زرداری سے سعودی وزیر خارجہ کی ملاقات

صدر مملکت آصف علی زرداری سے سعودی وزیر خارجہ...

خواہش ہے پی آئی اے کی نجکاری جون کے آخر تک مکمل کر لیں: وفاقی وزیر خزانہ

اسلام آباد: وفاقی وزیر خزانہ محمد اورنگزیب نے کہا...

اکسٹھ ویں قسط: پُر اسرار ہیروں والی گیند اور دہشت بھری دنیا

نوٹ: یہ طویل ناول انگریزی سے ماخوذ ہے، تاہم اس میں کردار، مکالموں اور واقعات میں قابل ذکر تبدیلی کی گئی ہے، یہ نہایت سنسنی خیز ، پُر تجسس، اور معلومات سے بھرپور ناول ہے، جو 12 کتابی حصوں پر مشتمل ہے، جسے پہلی بار اے آر وائی نیوز کے قارئین کے لیے پیش کیا جا رہا ہے۔

گزشتہ اقساط پڑھنے کے لیے کلک کریں

’’آؤ آؤ … تم مجھے نہیں پکڑ سکتے۔‘‘ فیونا ان کا منھ چڑانے لگی۔ دانیال کی آنکھیں خوف سے بھر گئیں۔ وہ ڈری ڈری آواز میں بولا: ’’فیونا یہ کیا کر رہی ہو، دیکھو وہ تمھارے قریب آ رہے ہیں۔‘‘

فیونا سیٹی سے مشابہ آواز میں مسلسل گنگنا رہی تھی، اچانک ایک پرندہ غار کے اوپر بنے دہانے سے اندر آیا۔ دانیال نے مڑ کر دیکھا تو دوسرا پرندہ بھی آ گیا، اور اس کے بعد ذرا سی دیر میں غار پفن نامی پرندوں سے بھر گیا۔ دانیال کے چہرے پر پہلے حیرت کے آثار چھائے اور پھر وہ مسرت سے کھل اٹھا۔ پرندوں کے پروں کی پھڑپھڑاہٹ نے ذرا ہی دیر میں درندوں کو پاگل سا کر دیا۔ ایسے میں فیونا نے چیخ کر دانیال سے کہا کہ وہ جلدی سے جا کر جبران کو چھڑا کر لائے۔ فیونا اور جوش سے گانے لگی اور پرندوں سے مخاطب ہو کر حکم دیا: ’’ٹرالز پر حملہ کر دو۔‘‘ پرندوں نے اشارے کی سمت میں دیکھا اور ٹرالز پر حملہ آور ہو گئے۔ جبران پر پہرہ دینے والا ٹرال بھی دیگر ٹرالز کے ساتھ شامل ہو گیا تھا۔ وہ سب غرا کر پرندوں کو ہٹانے کی کوشش کرنے لگے جب کہ پرندے ان کی ناکوں، آنکھوں، کانوں اور جگہ جگہ نوچنے لگے تھے۔ دانیال دوڑ کر جبران کے پاس پہنچ گیا، جبران نے کہا: ’’جلدی کھولو دانی، ٹرال کے واپس آنے سے پہلے مجھے آزاد کر دو۔‘‘

دانیال نے رسی کھول دی۔ دونوں اٹھ کر سرنگ میں فیونا کے پاس آ گئے۔ ’’بہت خوب، کیسے ہو جبران؟‘‘ فیونا اپنی ترکیب کامیاب ہوتے دیکھ کر چہک اٹھی۔ جبران نے پوچھا: ’’حیرت ہے فیونا، یہ پرندے تو ٹرالز پر دشمنوں کی طرح حملہ کر رہے ہیں، تم نے یہ سب کیسے کیا؟‘‘

’’میرے خیال میں کنگ کیگان نے مجھے یہ دھن سکھائی ہے۔‘‘ فیونا دھن سنانے لگی۔

درندے نہایت غصے کی حالت میں دیگر سرنگوں کی طرف بڑھنے لگے تاکہ باہر نکل سکیں۔ فیونا نے چلا کر پرندوں سے کہا کہ ان کے غار سے نکلنے تک درندوں کو نہ چھوڑیں۔ اور پفن پرندے خوف زدہ ٹرالز کو بدستور کاٹتے نوچتے رہے۔

فیونا نے دونوں سے کہا کہ اب جتنی جلدی ہو سکے انھیں غار کے علاقے سے چلے جانا چاہیے، لیکن سب سے پہلے مرجان حاصل کرنا ہے۔ دانیال نے جبران کو بتایا کہ انھوں نے مرجان کو تقریباً نکال ہی لیا تھا کہ اچانک زلزلہ آ گیا۔ جبران نے بھی کہا اس نے بھی زلزلے کو محسوس کیا تھا لیکن ٹرالز بالکل اس پر پریشان نہیں ہوئے تھے، اس نے کہا کہ شاید یہ ان کے لیے معمول کی بات ہو۔ فیونا انھیں دوبارہ اسی مقام پر لے گئی جہاں مرجان موجود تھے، لیکن اب وہاں ایک بڑے پتھر نے سوراخ کو بند کر دیا تھا۔ تینوں نے مل کر زور لگایا اور آخر کار پتھر کو ہٹا دیا۔ فیونا بولی: ’’یہی ہے وہ سوراخ جس کے اندر مرجان ہے لیکن مسئلہ یہ ہے کہ جیسے ہی اسے اٹھانے کی کوشش کریں گے، زلزلہ آ جائے گا۔ تو ایسے میں کیا کیا جائے؟‘‘

’’میرے خیال میں مرجان اٹھا کر اندھا دھند بھاگ جاتے ہیں۔‘‘ جبران بولا، لیکن دانیال نے فوراً مداخلت کی: ’’لیکن یہاں تیسرا پھندا بھی تو ہے۔‘‘ فیونا نے جواب دیا: ’’وہ تو جب سامنے آئے گا تو اس وقت ہی اس کے ساتھ بھی دیکھ لیں گے، فی الوقت مجھے جبران کی بات درست لگ رہی ہے۔ دانی، تم جیسے ہی مرجان اٹھالو گے ہم سب فوری دوڑ لگا لیں گے اور جتنا تیز بھاگ سکتے ہیں، اتنی تیزی سے بھاگیں گے۔ مجھے امید ہے کہ چھت ہم پر نہیں گرے گی۔‘‘

’’کیا تم تیار ہو؟‘‘ جبران نے دانیال کی طرف دیکھا۔ دانیال نے سر ہلایا، گہری سانس لی، اور پھر بیٹھ کر سوراخ میں ایک بار پھر ہاٹھ ڈال دیا۔ فیونا نے جبران کو اپنی طرف کھینچ لیا اور کہا: ’’جیسے وہ پتھر اٹھاتا ہے، تم نے دوڑ لگانی ہے اور پیچھے مڑ کر ہرگز نہیں دیکھنا۔‘‘

دانیال نے اپنی انگلیوں پر مرجان کو محسوس کیا۔ ’’میں نے اسے پکڑ لیا ہے لیکن جیسے ہی میں اسے باہر کھینچوں گا ہم مر جائیں گے۔‘‘

’’نہیں … ہم نہیں مریں گے، تم اسے نکال لو۔‘‘ فیونا مضبوط لہجے میں بولی۔ دانیال نے ایک لمحے کے لیے آنکھیں بند کیں اور پھر کھول کر مرجان کو مٹھی میں دبایا اور ایک جھٹکے سے ہاتھ باہر کھینچ لیا۔

زمین کو شدید جھٹکا لگا۔ اور غار میں زبردست گڑگڑاہٹ ہونے لگی۔ غار کی چھت سے سیاہ لاوے کے بڑے بڑے ٹکڑے گرنے لگے۔ اور وہ تینوں ان سے بچنے کے لیے اندھا دھند بھاگتے ہوئے غار کے دہانے کی طرف بڑھنے لگے۔ زمین مسلسل ہل رہی تھی، اس لیے وہ دوڑتے دوڑتے بری طرح لڑکھڑا رہے تھے۔ اس دوران زمین سے نوکیلے پتھر بھی نکل آئے تھے، اور ان کے پیچھے دھول کا ایک بادل چکر کاٹتا چلا آ رہا تھا۔

’’ہم مرنے والے ہیں۔‘‘ جبران نے خوف سے چلا کر کہا لیکن اس نے دوڑنا بند نہیں کیا۔ ان کے پیچھے زبردست دھماکے ہونے لگے تھے، غار کی چھت جگہ جگہ سے منہدم ہو رہی تھی۔ عین اسی لمحے جب وہ غار کے دہانے سے باہر نکلے، پورا غار ہی ایک دھماکے سے بیٹھ گیا اور ہر طرف دھول چھا گئی۔

’’ہم زندہ نکل آئے … ہم زندہ نکل آئے … دیکھا ہم نہیں مرے۔‘‘ دانیال خوشی سے اچھلنے لگا۔ لیکن جبران تیزی سے فیونا کی طرف بڑھا: ’’کیا ہوا، کیا تم زخمی ہو گئی ہے۔‘‘ انھوں نے دیکھا کہ فیونا کے بازوؤں اور ٹانگوں سے خون بہہ رہا تھا، اسے دراصل لاوے کے چھری کی تیز دھار جیسے نوکیلے پتھر چبھ گئے تھے۔ جبران نے اس کے بازوؤں اور ٹانگوں سے احتیاط کے ساتھ وہ ٹکڑے نکالے۔ ’’شکر ہے کہ ہمارے سر ان سے بچ گئے ہیں۔‘‘ جبران نے کہا۔ فیونا ایک کپڑے خون صاف کرنے لگی۔

’’حیرت ہے، وہ احمق ٹرالز کہاں چلے گئے۔‘‘ دانیال نے چاروں طرف دیکھا۔ ’’میرے خیال میں میں جانتی ہوں، چلو میرے پیچھے آؤ۔‘‘ فیونا بولی۔ وہ انھیں پہاڑی کے اوپر لے گئی اور ایک جگہ سلگتے انگاروں کی طرف اشارہ کر کے بولی: ’’وہ رہے ٹرالز۔‘‘

’’یہ تو ٹرالز نہیں ہیں، کسی نے کچرا جلایا ہے۔‘‘ جبران نے منھ بنا لیا۔ دانیال نے خدشہ ظاہر کر دیا کہ کہیں آتش فشاں پھر سے تو نہیں ابلنے لگا ہے۔ جب تینوں اس جگہ کے مزید قریب گئے تو فیونا بولی: ’’دیکھو، ان کی ساخت بالکل ٹرالز جیسی ہے، پفن پرندوں نے ان کا پیچھا کیا اور وہ باہر سورج میں نکل آئے اور جل کر راکھ ہو گئے۔‘‘

تینوں اس بات پر بہت خوش دکھائی دینے لگے۔ فیونا اچھلنے لگی تھی، کہ پرندوں نے ان کی کس طرح سے مدد کی۔ لیکن جبران نے اسے ٹوک دیا کہ زیادہ خوش ہونے کی ضرورت نہیں، کیوں کہ تیسرا پھندا بھی یہیں کہیں موجود ہے۔

دانیال نے جیب سے مرجان نکال کر انھیں دکھایا۔ فیونا نے وہ لے لیا اور اوپر کر کے اسے دیکھنے لگی۔ ’’یہ تو آبسیڈین سے کہیں زیادہ خوب صورت ہے، دیکھو کتنا گلابی ہے یہ۔‘‘ فیونا نے کہیا اور پھر سے سیٹی بجانے لگی۔ پفن پرندے ذرا ہی دیر میں اڑ کر ان کی طرف آ گئے۔ وہ بولی: ’’ذرا ان پرندوں کو دیکھو، آسمان پر ان سے ایک کالی چادر سی تن گئی ہے۔‘‘

پرندے ان تینوں کے سروں پر چکر کاٹنے اور آوازیں نکالنے لگے۔ ’’کتنے پیارے ہیں یہ پرندے۔‘‘ فیونا بولی۔ کچھ دیر تک پرندے ان کے گرد چکر کاٹتے رہے اور پھر اڑ کر چلے گئے۔ ایک پفن جو ابھی بچہ تھا، پیچھے رہ گیا۔ فیونا نے اسے اٹھایا اور بڑے پیار سے چہرے سے لگا لیا۔

(جاری ہے)

Comments

- Advertisement -