تازہ ترین

حکومت کا ججز کے خط پر انکوائری کمیشن بنانے کا اعلان

اسلام آباد: وفاقی حکومت نے اسلام آباد ہائی کورٹ...

فوجی عدالتوں سے 15 سے 20 ملزمان کے رہا ہونے کا امکان

اسلام آباد : اٹارنی جنرل نے فوجی عدالتوں سے...

وہ معرکہ جس میں ترک فوج دشمن کے مدمقابل آئے بغیر ہی فاتح ٹھہری

وہ ستمبر 1788ء کی ایک رات تھی جب ایک خوں ریز تصادم نے ترک فوج کے لیے وہ راستہ آسان کر دیا جس سے گزر کر وہ غالب اور فاتح رہی، لیکن دل چسپ بات یہ ہے کہ تر فوج نے اس میں‌ دشمن کا مقابلہ نہیں‌ کیا بلکہ آسٹریا کی فوج نے غلط فہمی کے سبب آپس میں گردنیں مار کر سلطنتِ‌ عثمانیہ کی فوج کو گویا کارانسیبیش خود ہی سونپ دیا۔ یہ شہر آج یورپ میں رومانیہ کا حصّہ ہے۔

عثمانی ترک اور آسٹریا کی فوج کے درمیان معرکے زوروں پر تھے اور ایک موقع پر جب آسٹریا کی ایک لاکھ فوج کارانسیبیش گاؤں کے قریب خیمہ زن تھی تب یہ واقعہ پیش آیا۔

آسٹریائی فوج کے چند جاسوسوں اور قیادت پر مشتمل ایک دستہ عثمانی فوج کی نقل و حرکت اور پیش قدمی کا جائزہ لینے روانہ ہوا اور دریائے ٹیمز عبور کر کے آگے بڑھا تو انھیں راستے میں شراب فروخت کرنے والے ملے۔ یہ جاسوس بہت تھکے ہوئے تھے۔ انھوں نے شراب پینے اور کچھ دیر سستا کر آگے بڑھنے کا فیصلہ کیا۔ ان کا یہ فیصلہ بڑی بدبختی اور ذلّت و رسوائی کا سبب بن گیا۔ جاسوسوں نے کچھ زیادہ شراب پی لی اور نشے میں دھت ہو کر رہ گئے۔

تھوڑی دیر بعد آسٹریائی پیادہ فوج کا ایک اور دستہ وہاں پہنچ گیا اور انھوں نے بھی اس محفلِ عیش میں شریک ہونا چاہا، لیکن وہاں پہلے سے موجود شراب کے نشے میں دھت جاسوسوں نے انھیں اپنے ساتھ شریک کرنے سے انکار کر دیا اور دونوں کے درمیان تکرار کے بعد نوبت ہاتھا پائی تک پہنچ گئی۔ اسی جھگڑے کے دوران کسی سپاہی سے گولی چل گئی اور پیادہ دستے کے چند سپاہیوں نے یہ شور مچا دیا کہ عثمانی فوج نے حملہ کر دیا ہے۔ ادھر نشے میں دھت جاسوس دستے کے سپاہیوں نے یہ سن کر خیال کیا کہ عثمانی فوج پیچھے سے حملہ آور ہو گئی ہے، چنانچہ وہ گھبراہٹ اور افراتفری میں وہاں سے کچھ فاصلے پر موجود پیادہ فوج کی طرف بھاگے۔ انھیں یوں اپنی طرف آتا دیکھا تو پیادہ سپاہی بھی یہی سمجھے کہ عثمانی فوجی آگئے ہیں اور ان جاسوسوں کے پیچھے ہیں۔ الغرض رات کی تاریکی میں جو شور اور افراتفری اس مقام پر تھی، اس نے کسی کو بھی کچھ سمجھنے سوچنے کا موقع نہیں دیا اور ایک غلط فہمی نے بڑی بدحواسی کو ان کی صفوں میں جگہ دے دی تھی۔ چنانچہ اس فوج نے اپنے مرکز کی جانب راہِ فرار اختیار کی۔

آسٹریا کی فوج میں مختلف قومیتوں سے تعلق رکھنے والے سپاہی تھے۔ ان میں اکثر جرمن زبان بولتے تھے اور بعض سرب زبان اور کچھ کروشیائی زبان میں گفتگو کرتے تھے۔ ان میں سے ہر ایک اپنی زبان میں چیخ پکار کرنے لگا اور نشے کی حالت میں یوں بھی ان کے سوچنے سمجھنے کی طاقت پوری طرح بحال نہ تھی۔

ادھر آسٹریائی فوج کے یہ دونوں گروہ جب اپنے گھوڑوں پر سوار اپنے فوجی پڑاؤ کی طرف بڑھے تو وہاں موجود سپاہ یہ سمجھی کہ یہ ترک ہیں اور ان پر حملہ ہوگیا ہے۔ چنانچہ انھوں نے مورچہ بند ہو کر فائر کھول دیا اور یوں ایک ہی ملک کی فوج کے مابین جنگ شروع ہوگئی۔ وہ ایک دوسرے کو قتل کرتے رہے۔ پوری فوج میں افراتفری اور انتشار تھا اور حقیقت کسی کو معلوم نہ تھی۔

اس روز رات کی تاریکی میں آسٹریا کا یہ لشکر اپنے ہاتھوں ہی مٹ گیا۔ اس معرکے میں 10 ہزار سے زائد سپاہی مارے گئے جب کہ باقی جان بچانے کی غرض سے ادھر ادھر بھاگ نکلے۔

اس تصادم کے دو روز بعد عثمانی فوج اس مقام تک پہنچی تھی۔ جہاں آسٹریائی فوج نے خیمے لگائے تھے، وہ دراصل ایک گاؤں کا نزدیکی علاقہ تھا۔ ترکی کی فوج کو یہاں مردہ اور زخمی فوجی ملے اور ان کا اسلحہ بھی ہاتھ آیا۔

زخمی فوجیوں کی زبانی عثمانی فوج کو صورتِ‌ حال کا اندازہ کرنے میں آسانی ہوئی اور انھوں نے پیش قدمی جاری رکھتے ہوئے کارانسیبیش شہر پر باآسانی قبضہ کر لیا۔

Comments

- Advertisement -