تازہ ترین

ملک کو آگے لے جانے کیلیے تقسیم ختم کرنا ہوگی، صدر مملکت

اسلام آباد: صدر مملکت آصف علی زرداری کا کہنا...

صدر آصف زرداری آج پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس سے خطاب کریں گے

اسلام آباد : صدر آصف زرداری آج پارلیمنٹ کے...

پاکستانیوں نے دہشت گردوں کے ہاتھوں بہت نقصان اٹھایا، میتھیو ملر

ترجمان امریکی محکمہ خارجہ میتھیو ملر نے کہا ہے...

فیض حمید پر الزامات کی تحقیقات کیلیے انکوائری کمیٹی قائم

اسلام آباد: سابق ڈائریکٹر جنرل انٹر سروسز انٹلیجنس (آئی...

افغانستان سے دراندازی کی کوشش میں 7 دہشتگرد مارے گئے

راولپنڈی: اسپن کئی میں پاک افغان بارڈر سے دراندازی...

یوکرین، ایران اور امریکی کمپنی کے درمیان جھولتے بلیک باکس میں‌ ہے کیا؟

تہران کے ہوائی اڈے سے پرواز کرنے والا یوکرین کا مسافر طیارہ اڑان بھرنے کے آٹھ منٹ بعد ہی گر کر تباہ ہو گیا تھا اور اس میں سوار 176 افراد میں سے کوئی بھی زندہ نہیں بچا۔

ایران نے اس طیارے کا بلیک باکس بوئنگ کمپنی یا امریکا کو دینے سے انکار کر دیا ہے۔

یہی بلیک باکس اس فضائی حادثے کی وجوہ جاننے میں مددگار ثابت ہوتا ہے۔

بین الاقوامی قوانین ایران کو تحقیقات کی سربراہی کا حق تو دیتے ہیں، لیکن اس میں طیارہ بنانے والی کمپنی بھی شامل ہوتی ہے۔ امریکی بوئنگ کے تیار کردہ طیاروں سے متعلق تحقیقات میں اس ملک کی نیشنل ٹرانسپورٹ سیفٹی بورڈ کا بھی کردار ہوتا ہے۔ یہ ایک عام بات ہے، مگر یہ حادثہ ایسے وقت میں پیش آیا ہے جب ایران اور امریکا کے مابین حالات شدید کشیدہ ہیں۔

بلیک باکس کیا ہے؟

تین تہوں پر مشتمل اس باکس کی تیاری میں خیال رکھا جاتا ہے کہ بلندی سے گرنے کے بعد اس میں موجود حساس آلات کو کوئی نقصان نہ پہنچے۔

بلیک باکس کی بیرونی تہ مضبوط اسٹیل یا ٹائی ٹینیٹم دھات سے تیار کی جاتی ہے۔ یہ اس باکس کو شدید دھچکے اور دباؤ سے بچاتی ہے۔

باکس کی دوسری تہ کو ایک انسولیشن خانہ کہا جاسکتا ہے۔

تیسری تہ باکس کو آگ اور تپش سے محفوظ رکھتی ہے۔

یہ تینوں تہیں فلائٹ ڈیٹا ریکارڈ کو ضایع ہونے سے بچا لیتی ہیں۔

بلیک باکس کو متعدد طریقوں سے جانچنے کے ساتھ آزمائشی مراحل سے گزارا جاتا ہے۔ ان میں آگ اور حرارت پہنچانا، زیرِ آب رکھنا اور باکس پر مختلف معائعات آزمانا شامل ہے۔

بلیک باکس کیا بتا سکتا ہے؟

حادثہ سطحِ زمین پر ہو یا فضا میں، طیارہ کسی سمندر میں گرا ہو تب بھی بلیک باکس کے ریکارڈ شدہ ڈیٹا اور آوازوں سے معلوم کیا جاسکتا ہے کہ طیارہ حادثے کے وقت کتنی بلندی پر پرواز کر رہا تھا۔

اسی طرح پرواز کی سمت اور رفتار کیا تھی۔ ماہرین اس باکس کی مدد سے جان سکتے ہیں کہ اس کے انجن کس حالت میں تھے۔

ان بنیادی باتوں کے علاوہ کاک پٹ میں ہونے والی گفتگو سنی جاتی ہے۔ ریکارڈ شدہ آوازوں سے معلوم ہو جاتا ہے کہ حادثہ کے وقت طیارے کے عملے نے آپس میں یا کنٹرول ٹاور سے کیا بات کی تھی۔ اس سے حادثے کی وجوہ کا تعین کرنے میں مدد ملتی ہے۔

محققین کو اہم ترین معلومات فراہم کرنے والا یہ آلہ طیارے کے پچھلے حصّے میں نصب کیا جاتا ہے تاکہ وہ محفوظ رہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ عموماً کریش یا کسی دوسری افتاد کا سامنا کرنے کی صورت میں طیارے کا اگلا حصہ ہی کسی پہاڑ، زمین، عمارات وغیرہ سے ٹکراتا ہے۔

ڈیوڈ وارن نے 1956 میں بلیک باکس کا پہلا نمونہ تیار کیا جو چار گھنٹے کی ریکارڈنگ کر سکتا تھا۔ اسے کئی سال بعد طیاروں کے لیے لازمی قرار دے دیا گیا۔

Comments

- Advertisement -