تازہ ترین

ایرانی صدر ابراہیم رئیسی کی کراچی آمد، مزار قائد پر حاضری

کراچی: پاکستان کے تین روزہ سرکاری دورے پر موجود...

ایرانی صدر کی مزار اقبال پر حاضری، پھول چڑھائے اور فاتحہ خوانی کی

لاہور: ایران کے صدر ابراہیم رئیسی کی لاہور آمد...

پاک ایران سرحد پر باہمی رابطے مضبوط کرنے کی ضرورت ہے، آرمی چیف

راولپنڈی: آرمی چیف جنرل عاصم منیر کا کہنا ہے...

پی ٹی آئی دورِحکومت کی کابینہ ارکان کے نام ای سی ایل سے خارج

وفاقی حکومت نے پی ٹی آئی دورِحکومت کی وفاقی...

چالاک درزی اور سپاہی (حکایتِ رومی)

ایک دفعہ کا ذکر ہے کہ چند دوست کہیں مل بیٹھے۔ باتوں باتوں میں ایک دوست نے کسی درزی کا تذکرہ چھیڑ دیا۔ اس نے کہا درزی بڑا عیّار ہے۔ لاکھ ہوشیاری سے کام لو، مگر وہ اپنا کام کر جاتا ہے اور کپڑا چوری کیے بغیر نہیں چھوڑتا۔

وہاں ایک سپاہی بھی بیٹھا ہوا تھا۔ اس نے شیخی بگھارتے ہوئے کہا کہ مجھے دھوکا دینا بہت مشکل ہے، میں کل ایک تھان لے کر اس درزی کے پاس جائوں گا اور اپنے سامنے کٹوا کر کرتا سلواؤں گا۔ اگر وہ تھان سے کچھ کپڑا اڑا لے تو میں زین سمیت گھوڑا ہار جاؤں گا۔

اگلے روز وہ سپاہی اطلس کا تھان لے کر درزی کی طرف چلا۔ اپنا گھوڑا ایک طرف باندھا اور درزی کے پاس جاکر یوں مخاطب ہوا، درزی! میں نے سنا ہے تُو بڑا چالاک ہے۔ تُو اوروں کو دائو دیتا ہو گا، مگر میں تیرے داؤ میں آنے والا نہیں۔

درزی نے کہا قبلہ! تشریف رکھیے آپ کے دل میں کس نے شک ڈالا۔ کام کرتے عمر گزر گئی۔ میں ایک کترن تک حرام سمجھتا ہوں۔ کسی اور الّو کو میں جُل دے بھی دوں، مگر آپ جیسے کائیاں مجھ سے کب دھوکا کھا سکتے ہیں؟ جب درزی نے ہاتھ میں قینچی لی، تو سپاہی چوکنا ہو کر بیٹھ گیا اور اس نے درزی کی آنکھوں پر اپنی آنکھیں لگا دیں۔

درزی نے سوچا کہ اسے باتوں میں لگا کر اور چٹکلے سنا کر غافل کرنا چاہیے چناں چہ اس نے اسے یہ لطیفہ سنانا شروع کیا۔

ایک درزی کی شادی ہوئی۔ بیوی پڑھی لکھی ملی، اسے استادوں کے ہزاروں شعر یاد تھے۔ وہ ایک دن اشعار سنا سنا کر خاوند سے داد مانگنے لگی اور پوچھا کہ بتائو کیا سمجھے؟ وہ سمجھتا کیا خاک! اسے تو ساری ابجد بھی یاد نہ تھی۔ جب بیوی نے سخت اصرار کیا تو وہ دل میں کچھ سوچ کر بیٹھا بیٹھا سر ہلانے لگ گیا۔ بیوی بولی، میں قسم کھا کر کہتی ہوں کہ تم شعروں کا مطلب سمجھتے ہو اور مجھے یونہی دم دیتے ہو کہ میں پڑھا ہوا نہیں۔

شوہر نے کہا، جو کچھ میری عقل میں آتا ہے میں بتا دیتا ہوں۔ بیوی بولی ہاں بتاؤ۔ اس نے کہا، اللہ کی قسم میں سمجھتا ہوں کہ تُو میرے پاس ٹکتی نظر نہیں آتی۔ یہ لطیفہ سن کر سپاہی مارے ہنسی کے لوٹ پوٹ ہوگیا۔ درزی نے موقع کو غنیمت جانا اور تھان سے ایک چوتھائی حصہ کاٹ کر الگ رکھ لیا۔

سپاہی نے کہا، ہاں ایک اور چٹکلہ ہو جائے۔ درزی نے ایسا ہی ایک اور لطیفہ سنایا۔ سپاہی کے پیٹ میں مارے ہنسی کے بل پڑ گئے۔ ہنستے ہنستے جب اس کا سرزمین پر جا لگا درزی نے ایک چوتھائی حصہ کپڑا اور کاٹ لیا۔

اس کے بعد ترک سپاہی نے فرمائش کی کہ استاد! ایک لطیفہ اور بھی سنا دو۔ درزی نے کہا اب اور فرصت نہیں۔ جلد ناپ دو ورنہ کرتا بگڑ جائے گا اور بدن پر تنگ آئے گا۔ ادھر درزی اس سپاہی کا کُرتا تیّار کرنے بیٹھا اور اُدھر سپاہی نے دیکھا تو معلوم ہوا کہ اس کا گھوڑا تو چور لے اڑا ہے۔

سبق: یہاں سپاہی سے مراد وہ شخص ہے، جو اپنے تقویٰ کے زعم پر شیطانی صحبت میں جا بیٹھتا ہے اور شیطان درزی کی طرح اس کو خواہشاتِ نفسانی (لطیفوں اور ہنسی مذاق کی باتوں)‌ میں لگا کر اس کی عمر کے تھان کو رات دن کی قینچی سے کاٹ ڈالتا ہے۔

(مثنوی مولانا جلال الدّین رومی سے انتخاب)

Comments

- Advertisement -