تازہ ترین

چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے پروٹوکول واپس کر دیا

چیف جسٹس آف پاکستان قاضی فائز عیسیٰ نے چیف...

کاروباری شخصیت کی وزیراعظم کو بانی پی ٹی آئی سے ہاتھ ملانے کی تجویز

کراچی: وزیراعظم شہباز شریف کو کاروباری شخصیت عارف حبیب...

وزیراعظم شہباز شریف کی مزار قائد پر حاضری

وزیراعظم شہباز شریف ایک روزہ دورے پر کراچی پہنچ...

ایران کے صدر ڈاکٹر ابراہیم رئیسی دورہ پاکستان مکمل کرکے واپس روانہ

کراچی: ایران کے صدر ڈاکٹر ابراہیم رئیسی دورہ پاکستان...

اردو کے رسائل اور مسائل (انشائیہ از جون ایلیا)

افلاطون نے اپنی مشہورِ زمانہ تصنیف "جمہوریہ” میں ایک نظامِ تعلیم و تربیت مرتّب کیا تھا جس کی رُو سے تین سال سے لے کر چھ سال تک کی عمر کے بچوں کو قصّوں اور حکایتوں کے ذریعہ تعلیم دی جانا چاہیے۔

اردو کے مدیرانِ رسائل قابلِ داد ہیں جنہوں نے یہ نصاب اپنے قارئین کے لیے تجویز کیا ہے چنانچہ صورتِ حال یہ ہے کہ ہمارا ادب، ہمارا ادبی شعور ہماری ادبی صحافت سب نابالغ ہیں۔

جدھر دیکھیے دیوانَ داغ اور فسانۂ عجائب کی نسل پروان چڑھتی نظر آ رہی ہے۔ میر تقی بیچارے ایسے کون سے بڑے شاعر تھے لیکن آج ان کے اعزاز میں ہر رسالہ غزلوں پر غزلیں چھاپ کر گویا غزل کا عرس برپا کر رہا ہے۔ ادبی جرائد کا پورا ادب غزل اور تنقید غزل میں محدود ہو کر رہ گیا ہے۔ کسی بھی سنجیدہ، بالغ النّظر اور اور ارتقا پذیر سماج کے لیے یہ بات باعث تشویش ہے۔

آخر ہم کس عہد میں زندگی بسر کر رہے ہیں؟ اس عہد میں زندگی بسرکرنا چاہتے ہیں یا نہیں؟ کیا کوئی قوم صرف افسانوں غزلوں اور نام نہاد تنقیدی مقالوں کے سہارے زندہ رہ سکتی ہے؟ کیا بیسویں صدی میں کوئی معاشرہ اپنی ادبی صحافت کی اس سطح پر قانع ہو سکتا ہے؟

یہی نہیں کہ ہماری ادبی صحافت ادبی اور علمی اعتبار سے قطعاً بے مایہ اور مفلس ہے بلکہ علم دشمن بھی ہے۔ اگر کوئی رسالہ نفسیاتی، تاریخی، فلسفی اور سائنسی مباحث و مسائل اور ادبِ عالی کے موضوعات پر مضامین شائع کر دے تو اسے ادبی رسالہ تسلیم نہیں کیا جائے گا۔ ادبی رسالہ کی علامت صرف یہ ہے کہ اس کا نصف حصّہ غزلوں سے مخصوص ہو باقی نصف میں کچھ نظمیں ہوں، کچھ افسانے ہوں اور پانچ چھ صفحے کا ایک ادبی مضمون جسے بڑے ہی اعتماد کے ساتھ "مقالہ” سے تعبیر کیا جاتا ہے۔ لیجیے اردو کا "ادبی، علمی اور تہذیبی مجلہ” مرتب ہو گیا۔

مدیر کا یہ فرض ہرگز نہیں کہ وہ اپنی طرف سے اداریہ بھی لکھے۔ اسی لیے اب "مدیر” کے بجائے احتياطاً "مرتب” کی اصطلاح اپنا لی گئی ہے۔ مرتب کی ایک خصوصیت یہ بھی ہے کہ وہ اردو کے عظیم فن کاروں کی طرف سے تو ادبی مناظرے بھی کر لیتا ہو لیکن خود اردو سے اسے کوئی دل چسپی نہ ہو، مرعوب اسی وقت ہوتا ہے جب مغربی نقادوں کے چند نام گنوائے جائیں۔

بہرحال یہ ہے ہمارے اکثر رسائل اور ان کے ایڈیٹروں کا حال۔ یہ لوگ سائنسی حقائق اور سماجی مسائل کی اس سیل گاہ میں بالکل از کارِ رفتہ ہو چکے ہیں۔ نہ انہیں معاملات کا شعور ہے اور نہ اپنے فرائض کا احساس، ان کے ذہن میں یہ سوال پیدا ہی نہیں ہوتا کہ جن قدروں پر ان کا ادب آج تک زندگی بسر کرتا چلا آیا ہے اب ان کا حشر کیا ہوگا۔ چلیے یہ تو دور کی بات ہے آخر وہ یہ کیوں نہیں غور کرتے کہ اردو رسائل کس لیے نامقبول ہیں؟

یہ صحیح ہے کہ قوم کی معاشی تقدیر انگریزی سے وابستہ ہے اور اسی صورت حال کا اثر اردو زبان سے تعلق رکھنے والے ہر شعبہ اور ہر شخص پر پڑتا ہے لیکن یہ تصویر کا صرف ایک رخ ہے۔ اگرچہ بےحد اہم، بے حد اہم رخ سہی، لیکن دوسرا رخ یہ ہے کہ اسی غریب زبان اردو کے روزناموں نے انہی ناسازگار حالات میں انگریزی روزناموں کو بری طرح شکست دے دی ہے اور انقلاب کے بعد تو اردو روزناموں کی رفتارِ ترقی اور بھی تیز ہوتی جا رہی ہے۔ اب یقین سے کہا جا سکتا ہے کہ دو تین سال کے اندر ہمارے بعض روزنامے ایک لاکھ کی اشاعت تک پہونچ جائیں گے۔

ماہ ناموں کو غور کرنا چاہیے کہ آخر یہ کیا بات ہے؟ بات یہ ہے کہ اردو کی ماہ نامہ صحافت نے ابھی تک نئے عہد کو نہیں سمجھا ہے۔ وہ اب تک بھی یہی سمجھ رہے ہیں کہ انگریزی کے دو تین نقّادوں اور فرانس کے نفسیاتی مریضوں کے نام رسالوں کو فروخت کرا دیں گے۔ وہ زمانہ گزر گیا جب چند یونانی مفکروں اور مغربی ادیبوں اور ناقدوں کے نام لے کرمرعوب کر لیا جاتا تھا، یہ زمانہ فکر و نظر کی رصانت و ریاضت کا زمانہ ہے۔ آج کے قاری کو مسائل سے ناواقف و بے گانہ خیال کرنا حماقت ہے۔

قارئین دو قسم کے ہیں۔ ایک وہ لوگ جو صرف جنسی جاسوسی اور فلمی تحریروں سے بہل سکتے ہیں۔ دوسرے وہ لوگ جو مذہبی، تاریخی، سیاسی، سماجی، نفسیاتی، معلوماتی، ادبی اور علمی مضامین پڑھنا پسند کرتے ہیں۔ ان لوگوں میں مختلف سطح کے افراد شامل ہیں۔ ادبی اور علمی رسائل کا تعلق انہی لوگوں سے ہے۔

عموماً یہ خیال کیا جاتا ہے کہ پہلی قسم کے قارئین کی تعداد زیادہ ہے، لیکن یہ غلط ہے۔ اگر یہ صحیح ہوتا تو اردو کے فلمی رسالے لاکھوں کی تعداد میں شائع ہوا کرتے، درآں حالیکہ ان کا حال بہت ابتر ہے۔

بات یہ ہے کہ عمر کے ایک خاص حصے ہی میں جنسی اور فلمی موضوعات میں دل چسپی لی جا سکتی ہے۔ پاکستان میں اس قبیل کے مواد کی مقبولیت کا ایک سبب یہ بھی ہوا کہ یہاں ابھی ایک ڈیڑھ سال پہلے تک پوری قوم سیاسی بے یقینی، نفسیاتی پیچیدگی، سماجی بے ضمیری، ذہنی انتشار اور اخلاقی بدحالی میں مبتلا تھی۔ اس کا رد عمل یہی ہو سکتا تھا کہ سنجیدہ مسائل کی طرف سے توجہ ہٹ جائے۔ انقلاب کے بعد اس صورت حال میں نمایاں فرق ہوا ہے۔

(اردو کے مقبول ترین شاعر اور نثر نگار جون ایلیا کے انشائیے سے چند پارے جو ماہنامہ "انشاء” کراچی(1959ء) میں شایع ہوا تھا)

Comments

- Advertisement -