تازہ ترین

اسرائیل کا ایران پر فضائی حملہ

امریکی میڈیا کی جانب سے یہ دعویٰ سامنے آرہا...

روس نے فلسطین کو اقوام متحدہ کی مکمل رکنیت دینے کی حمایت کردی

اقوام متحدہ سلامتی کونسل کا غزہ کی صورتحال کے...

بیوٹی پارلرز اور شادی ہالز پر فکس ٹیکس لگانے کا فیصلہ

پشاور: خیبرپختونخوا حکومت نے بیوٹی پارلرز اور شادی ہالز...

چمن میں طوفانی بارش، ڈیم ٹوٹ گیا، مختلف حادثات میں 7 افراد جاں بحق

چمن: بلوچستان کے ضلع چمن میں طوفانی بارشوں نے...

انڈے کی آدھی خدمت

ایک چڑے چڑیا نے ایک اونچی کوٹھی میں اپنا گھونسلا بنایا تھا۔ اس کوٹھی میں ولایت سے بیرسٹری پاس کر کے آنے والے رہتے تھے اور ایک میم کو ساتھ لے کر آئے تھے۔

ان کی بیرسٹری کچھ چلتی نہ تھی مگرا میر زمیں دار تھے، گزارہ خوبی سے ہو جاتا تھا۔ ولایت سے آنے کے بعد خدا نےان کو ایک لڑکی بھی عنایت کی تھی۔

چڑے چڑیا نے کھپریل کے اندر ایک سوراخ میں گھر بنایا۔ تنکوں اور سوت کا فرش بچھایا۔ یہ سوت پڑوس کی ایک بڑھیا کے گھر سے چڑیا لائی تھی۔ وہ بیچاری چرخا کاتا کرتی تھی۔ الجھا ہوا سوت پھینک دیتی، تو چڑیا اٹھا لاتی اور اپنے گھر میں اس کو بچھا دیتی۔ خدا کی قدرت ایک دن انڈا پھسل کر گر پڑا اور ٹوٹ گیا۔ ایک ہی باقی رہ گیا۔ چڑے چڑیا کو اس انڈے کا بڑا صدمہ ہوا، جس دن انڈا گرا تو چڑیا گھونسلے میں ہی تھی۔ چڑا باہر دانہ چگنے گیا ہوا تھا۔ وہ گھر میں آیا تو چڑیا کو چپ چپ اور مغموم دیکھ کر سمجھا میرے دیر سے آنے کے سبب خفا ہوگئی ہے۔

لگا پھدک پھدک کر چوں چوں۔ چیں، چڑچوں، چڑچوں، چیں چڑچوں، چوں کرنے۔ کبھی چونچ مار کر گدگدی کرتا۔ کبھی خود اپنے پروں کو پھیلاتا مٹکتا، ناچتا، مگر چڑیا اسی طرح پھولی اپھری خاموش بیٹھی رہی۔ اس نے چڑے کی خوشامد کا کوئی جواب نہ دیا۔ چڑا سمجھا بہت ہی خفگی ہے۔ مزاج حد سے زیادہ بگڑ گیا ہے۔ خوشامد سے کام نہ چلے گا۔ میری کتنی بڑی توہین ہے کہ اتنی دیر خوشامد درآمد کی، بیگم صاحبہ نے آنکھ اٹھا کر نہ دیکھا۔

یہ خیال کر کے چڑا بھی منہ پھیر کر بیٹھ گیا۔ اور چڑیا سے بے رخ ہو کر نیچے بیرسٹر صاحب کو تاکنے لگا جو اپنی لیڈی کے سامنے آرام کرسی پر لیٹے ہنسی مذاق کر رہے تھے۔ چڑے نے خیال کیا یہ کیسے خوش نصیب ہیں۔ دونوں کا جوڑا خوش بشاش زندگی کاٹ رہا ہے۔ ایک میں بدنصیب ہوں، سویرے کا گیا دانہ چگ کر اب گھر میں گھسا ہوں، مگر چڑیا صاحبہ کا مزاج ٹھکانے میں نہیں ہے۔ کاش میں چڑا نہ ہوتا، کم سے کم آدمی بنا دیا جاتا۔

چڑا اسی ادھیڑ بن میں تھا کہ چڑیا نےغم ناک آواز نکالی۔ ’’چوں‘‘ چڑے نے جلدی سے مڑ کر چڑیا کو دیکھا اور کہا چوں چوں چڑچوں چوں کیا ہے، آج تم ایسی چپ کیوں ہو؟ چڑیا بولی انڈا گر کے ٹوٹ گیا۔ انڈا گرنے کی خبر سے چڑے کو رنج ہوا، مگر اس نے صدمہ کو دبا کر کہا، تم کہاں چلی گئیں تھیں۔ انڈا کیوں کر گر پڑا۔ چڑیا نے کہا میں اُڑ کر ذرا چمن کی ہوا کھانے چلی گئی تھی۔ انڈا پھسل گیا۔

یہ سن کر چڑا آپے سے باہر ہو گیا۔ اس کے مردانہ جوش میں طوفان اٹھ کھڑا ہوا اور اس نے کڑک دار گرجتی ہوئی چوں چوں میں کہا۔ پھوہڑ، بدسلیقہ، بے تمیز تو کیوں اُڑی تھی۔ تجھ کو چمن کی ہوا کے بغیر کیا ہوا جاتا تھا۔ کیا تُو نے بھی اس گوری عورت کی خصلت سیکھ لی ہے جو گھر کا کام نوکروں پر چھوڑ کر ہوا خوری کرتی پھرتی ہے۔ تُو ایک چڑیا ہے۔ تیرا کوئی حق نہیں ہے کہ بغیر میری مرضی کے باہر نکلے۔ تجھ کو میرے ساتھ اُڑنے اور ہوا خوری کرنے کا حق ہے۔ آج کل تُو انڈوں کی نوکر تھی۔ تجھے یہاں سے ہٹنے کا اختیار نہ تھا، تُو نے ایک انڈے کا نقصان کر کے اتنا بڑا قصور کیا ہے کہ اس کا بدلہ کچھ نہیں ہوسکتا، تُو نے خدا کی امانت کی قدر نہ کی، جو اس نے ہم کو نسل بڑھانے کی خاطر دی تھی۔ میں نے تو پہلے دن منع کیا تھا کہ اری کم بخت اس کوٹھی میں گھونسلہ نہ بنا، ایسا نہ ہو اُن لوگوں کا اثر ہم پر بھی پڑ جائے۔ ہم بیچارے پرانے زمانے کے دیسی چڑے ہیں۔ خدا ہم کو نئے زمانے کے چڑیا چڑے سے بھی بچائے رکھے، کیوں کہ پھر گھر کے رہتے ہیں نہ گھاٹ کے، مگر تُو نہ مانی، کہتی رہی ’’کوٹھی میں رہوں گی، کوٹھی میں گھر بناؤں گی۔‘‘ یہ کہہ کر میراناک میں دَم کر دیا۔

چڑیا پہلے تو اپنےغم میں چپ چاپ چڑے کی باتیں سنتی رہی لیکن جب چڑا حد سے بڑھا تو اس نے زبان کھولی اور کہا۔

بس، بس سن لیا، بگڑ چکے، زبان کو روکو۔ انڈے بچّے پالنے کا مجھی کا ٹھیکہ نہیں ہے، تم بھی برابر کے شریک ہو۔ سویرے کے گئے یہ وقت آگیا، خبر نہیں اپنی کس سگی کے ساتھ گلچھرے اڑاتے پھرتے رہے ہو گے۔ دوپہر میں گھر کےاندر گھسے ہیں اور آئے تو مزاج دکھانےآئے۔ انڈا گر پڑا۔ مرے پنجہ کی نوک سے، میں کیا کروں۔ میں کیا انڈوں کی خاطر اپنی جان کو گھن لگا لوں، دو گھڑی باہر کی ہوا بھی نہ کھاؤں۔ صبح سے یہ وقت آگیا، ایک دانہ حلق سے نیچے نہیں گیا۔ تم نے پھوٹے منہ سے یہ بھی نہ پوچھا کہ کیا تُو نے کچھ تھوڑا نگلا۔ مزاج ہی دکھانا آتا ہے، اب وہ زمانہ نہیں ہے کہ اکیلی چڑیا یہ سب بوجھ اُٹھائے، اب آزادی اور برابری کا وقت ہے۔ آدھا کام تم کرو آدھا میں کروں۔ دیکھتے نہیں میم صاحبہ کو وہ تو کچھ بھی کام نہیں کرتیں۔ صاحب کو سارا کام کرنا پڑتا ہے۔ اور بچّے کو آیا کھلاتی ہے۔ تم نے ایک آیا رکھی ہوتی۔ میں تمہارےانڈے بچّوں کی آیا نہیں ہوں۔

چڑیا کی اس تقریر سے چڑا سُن ہوگیا اور کچھ جواب نہ بن پڑا۔ بےچارہ غصّہ کو پی کر پھر خوشامد کرنے لگا اور اس دن سے چڑیا کے ساتھ انڈے کی آدھی خدمت بانٹ کر اپنے ذمہ لے لی۔

(اردو کے ممتاز ادیب، انشا پرداز اور طنز و مزاح نگاری کے لیے مشہور خواجہ حسن نظامی کی ایک شگفتہ تحریر، جس کا اصل عنوان "مس چڑیا کی کہانی” ہے)

Comments

- Advertisement -