تازہ ترین

کچے کے ڈاکوؤں کو اسلحہ فراہم کرنیوالے 3 پولیس افسران سمیت 7 گرفتار

کراچی : پولیس موبائل میں جدید اسلحہ سندھ اسمگل...

پاکستان کو آئی ایم ایف سے 6 ارب ڈالر قرض پروگرام کی توقع

وفاقی وزیر خزانہ محمد اورنگزیب نے کہا ہے کہ...

اسرائیل کا ایران پر فضائی حملہ

امریکی میڈیا کی جانب سے یہ دعویٰ سامنے آرہا...

ایک تھیلی کے چٹّے بٹّے (انوکھا قصّہ)

یہ بہت پرانا قصّہ اُن دو آدمیوں کا ہے جو کسی زمانے میں پیدل سفر کو نکلے تھے۔ ایک مشرق سے مغرب کی طرف اور دوسرا مغرب سے شرق کی جانب۔

دونوں کی مڈ بھیڑ کسی تالاب پر ایک سایہ دار درخت کے نیچے ہوگئی۔ وہ دوپہر کا وقت تھا۔ چلچلاتی دھوپ تھی۔ دونوں نے درخت کے گھنے اور ٹھنڈے سائے میں کچھ دیر آرام کیا۔ دونوں کو سخت بھوک لگی تھی۔ توشہ دونوں کے پاس تھا۔ مگر کھانے کی نوبت نہیں آرہی تھی۔ وہ دونوں اس انتظار میں تھے کہ دوسرا توشہ دان کھولے اور دستر خوان بچھائے تو اس میں شریک ہو جائے۔ اس انتظار میں کھانے کا وقت نکل گیا۔ دونوں میں سے کسی نے پیٹ بھرنے کے لیے توشہ کھولنے میں پہل نہ کی۔ دراصل وہ دونوں نہایت ہی کنجوس تھے۔

بڑی دیر کے بعد بادلِ ناخواستہ ایک نے تالاب سے گلاس بھر پانی لیا اور توشہ دان میں سے روٹی نکال کر توڑی، اس نے روٹی کے ٹکڑے کو بڑی پھرتی سے پانی میں ڈبویا اور پھر فوراً توشہ دان میں رکھ لیا۔ البتہ جس پانی میں روٹی کو ڈبویا تھا، اسے غٹا غٹ پی گیا۔ پھر آرام سے ایک طرف لیٹ گیا۔

اب دوسرے سے بھی شاید رہا نہیں‌ جارہا تھا۔ اس نے بھی برتن میں پانی لیا، لیکن پھر ایک عجیب حرکت کی۔ اس نے روٹی تو نکالی، لیکن نہ تو اسے توڑا اور نہ ہی پانی میں‌ ڈالا بلکہ اس انداز سے روٹی کو برتن کے اوپر پکڑا کہ دھوپ میں اس کا عکس برتن کے پانی پر پڑے۔ اس نے گویا پانی کو روٹی کی پرچھائیں دکھا کر وہ پانی پی لیا۔ اور روٹی توشہ دان میں محفوظ کر دی۔

وہ آدمی جس نے روٹی کا ٹکڑا پانی میں‌ ڈبویا تھا، اس نے بھی یہ دیکھا اور سوچنے لگا کہ دوسرا آدمی بھی اس جیسا ہی ہے۔ تھے تو دونوں ہی حد درجہ بخیل اور کنجوس، مگر پہلا آدمی جس نے روٹی کو پانی میں بھگویا تھا، دوسرے والے کی حرکت دیکھ کر بہت متاثر ہوا تھا۔

اب وہ ایک دوسرے کو گویا پہچان چکے تھے اور سخت ضرورت اور بھوک میں بھی کھانا بچا کر رکھنے والی حرکت کرتا دیکھ چکے تھے۔ انہوں نے محسوس کیا کہ ان کے خیالات اور طبیعت میں یکسانیت موجود ہے اور تب انہوں نے آپس میں تعارف کرانا ضروری سمجھا۔ انہوں نے اپنے اپنے سفر کا مقصد ایک دوسرے کو بتایا تو دونوں ہی کو بہت خوشی ہوئی، کیوں‌ وہ ایک ہی مقصد لے کر گھروں سے روانہ ہوئے تھے۔

ان کا مقصد تھا رشتہ تلاش کرنا۔ ایک کو اپنے بیٹے کے لیے رشتہ چاہیے تھا اور دوسرا اپنی بیٹی کو بیاہنا چاہتا تھا اور اس مقصد کے لیے گھر سے نکلا تھا۔ دونوں نے فیصلہ کر لیا کہ خیالات کی یکسانیت اور طبیعتوں کی ہم آہنگی کے اعتبار سے ان کے خاندانوں کے درمیان مثالی رشتہ قائم ہو سکے گا۔

یوں‌ ایک کنجوس کے بیٹے کی شادی ایک بخیل کی بیٹی سے ہوگئی۔

(ماخوذ از قصّۂ قدیم)

Comments

- Advertisement -