تازہ ترین

کاروباری شخصیت کی وزیراعظم کو بانی پی ٹی آئی سے ہاتھ ملانے کی تجویز

کراچی: وزیراعظم شہباز شریف کو کاروباری شخصیت عارف حبیب...

وزیراعظم شہباز شریف کی مزار قائد پر حاضری

وزیراعظم شہباز شریف ایک روزہ دورے پر کراچی پہنچ...

ایران کے صدر ڈاکٹر ابراہیم رئیسی دورہ پاکستان مکمل کرکے واپس روانہ

کراچی: ایران کے صدر ڈاکٹر ابراہیم رئیسی دورہ پاکستان...

پاک ایران تجارتی معاہدے پر امریکا کا اہم بیان آگیا

واشنگٹن : نائب ترجمان امریکی محکمہ خارجہ کا کہنا...

اللہ جانیں یا میر انیس!

ہمہ صفت شمسُ الرّحمٰن فاروقی اپنی فکر و زاویہ نظر، اپنے مشاہدات، تجربات، وسیع مطالعے کے ساتھ اپنے تخیل اور قلم کی تحریک سے جنم لینے والی تخلیقات کے سبب نادرِ روزگار ٹھہرے۔ اردو زبان و ادب کو گراں قدر علمی و ادبی سرمائے سے مالا مال کرنے والے ہندوستان اس ادیب، شاعر، محقّق، نقّاد، مترجم اور لغت نویس کی تخلیقی جہات کا احاطہ کرنا بجائے خود ایک کام ہے۔

شمسُ الرّحمٰن فاروقی کی کسی ادبی موضوع، کتاب، شاعر و ادیب سے متعلق رائے سند بنتی، معتبر ٹھہرتی اور کسی کی شخصیت سے متعلق ان کے اظہارِ‌ خیال کو ممدوح باعثِ صد اعزاز و افتخار تصوّر کرتا۔ پچھلے سال آسمانِ ادب کا یہ روشن و رخشاں ستارہ ہمیشہ کے لیے ڈوب گیا۔ انھوں نے اپنے ایک انٹرویو میں‌ خدائے سخن میر انیس کی مدح سرائی اور ان کی مرثیہ گوئی پر اپنی رائے کا اظہار کیا تھا جس سے یہ ٹکڑا ملاحظہ کیجیے۔

’’میں میر انیس کو ہمیشہ سے چار پانچ بڑے شاعروں میں رکھتا ہوں۔ بنیادی بات رواں کلام ہے۔ یہ بہت بڑی صفت ہے۔ ہم اس کو سمجھ اور قدر نہیں کر پائے۔ خیر، یہ سمجھنے والی بات بھی نہیں، محسوس کرنے کی بات ہے۔ مصرع کتنا مشکل ہو، کتنا عربی فارسی ہو، کتنا ہندی سندھی ہو، آسانی اور روانی سے ادا ہوجاتا ہے۔ سمجھ میں آجاتا ہے۔

مصرع میں لگتا نہیں لفظ زیادہ ہو گیا ہے یا کم ہوگیا۔ میر انیس کا شاعری میں یہ کمال اپنی جگہ ہے کہ الفاظ کواپنے رنگ میں ڈھال لیتے ہیں، کسی سے یہ بَن نہیں پڑا۔ مضمون ایک ہے، لیکن ہرمرثیہ نیا معلوم ہوتا ہے۔ زبان پرغیر معمولی عبور۔ زبان عام طور پر شاعر پر حاوی ہوتی ہے، لیکن میر انیس زبان پر حاوی ہے۔

معمولی مصرع بھی کہیں گے تو ایسی بات رکھ دیں گے کہ کوئی دوسرا آدمی کہہ نہیں سکتا۔ اکثر یہ تو آپ تجزیہ کرکے دکھا سکتے ہیں کہ اس غزل یا نظم میں کیا کیا ہے، میر انیس کے معاملہ میں نہیں دکھا سکتے۔ مجھے ان کا مرثیہ دے دیں۔ اس کے ہر بند کے بارے میں بتا دوں گا لیکن مجموعی طور پر اتنا بڑا مرثیہ کیسے بن گیا اس کو اللہ میاں جانیں یا میر انیس۔

مرثیہ تو مرثیہ، سلام لکھنے بیٹھتا ہے تو اس میں کمال کر دیتا ہے۔ میں کبھی گھر میں سلام پڑھتا تو میری بیوی کہتی نہ پڑھو، مجھے رونا آ رہا ہے، یعنی اسے بھی رونا آتا ہے جو سلام کی باریکیوں سے واقف نہیں۔ وہ کہتے ہیں:

؎ زہرا کے گھر کے چاند، زمانے کے آفتاب

میرا عقیدہ کچھ بھی ہو، لیکن یہ مصرع مجھ پر بہت اثر کرتا ہے۔‘‘

Comments

- Advertisement -