مہندرناتھ اردو زبان کے ایک ایسے افسانہ نگار تھے جو ترقی پسند تحریک سے وابستہ رہے اور اسی نظریے کے زیر اثر ان کا قلم متحرک رہا۔ ان کا دوسرا سب سے بڑا تعارف یہ ہے کہ وہ معروف ادیب کرشن چندر کے چھوٹے بھائی تھے۔
بڑے ادیبوں اور شعرا کے تخلیقی سفر اور ان کے افکار و نظریات سے متعلق جاننا ادب کے طالبِ علموں اور قارئین کے لیے دل چسپ بھی ہوسکتا ہے اور بعض صورتوں میں مفید و معلوماتی بھی۔ یہ پارے دراصل مہندر ناتھ کی قلم کہانی ہے جو انہی کی زبانی سنیے:
میں نے ابتدا شاعری سے کی، آخیر میں بن گیا افسانہ نگار۔ شاعری راس نہ آئی بلکہ یوں کہیے کہ میں ردیف، قافیہ، بحر اور شاعری کے دوسرے لوازمات سے ناواقف تھا۔ کسی کو استاد بنانے کی کوشش نہ کی، شاعری کے لیے استادی اور شاگردی کی شرط مجھے بالکل نامنظور تھی۔
میں افسانہ نگار کیوں بنا۔ ڈاکٹر، پروفیسر، سیاست دان یا کام گار کیوں نہ بن گیا۔ یوں تو اس کرۂ ارض پر ہزاروں پیشے ہیں، جو افسانہ نگاری کے مقابلے میں زیادہ باوقاراور باعزّت ہیں۔ اور جہاں بیس بائیس برس محنت کر کے انسان ترقی کی آخری منزل تک پہنچ سکتا ہے۔ محض افسانہ نگار بننے سے کیا فائدہ۔
دراصل جب میں اپنی ذات کا تجزیہ کرتا ہوں تو معلوم ہوتا ہے کہ بنیادی طور پر مجھے یہ دنیا ناپسند تھی۔ چلیے صاحب، اگر یہ دنیا ناپسند تھی تو مجھے خودکشی کر لینی چاہیے۔ آخر جان کو روگ لگانے سے فائدہ۔ مجاز، منٹو، میرا جی یہ روگ لگا کر اس دنیا سے کوچ کر گئے۔ مجھے بھی اس صف میں شامل ہونا چاہیے تھا۔
شاید میں بزدل ہوں۔ مجھ میں اتنی ہمّت نہیں کہ خودکشی کر لوں۔ شروع ہی سے مجھے اس نظامِ زندگی سے سخت نفرت تھی اور ابھی تک ہے۔ حالانکہ میں نے زندگی میں کبھی فاقہ نہیں کیا۔ ہمیشہ ایک اچھے گھر میں رہا۔ روپوں کے لیے کبھی ہاتھ پھیلانے کی ضرورت نہیں پڑی۔ پھر بھی نہ جانے ذہن ہمیشہ بغاوت پرآمادہ رہا۔ سیدھے راستوں ہر چلنا گوارہ نہ کیا۔ پھولوں سے نباہ نہ ہوسکا۔ کانٹوں کی سیج پر سونے کی کوشش کی۔
یہ امیر اور غریب کی تقسیم، مفلسی، بیکاری، یہ ظلم و تشدد، انسانی کمینگی، نسلی تعصب، ہندو اور مسلمان کی تفریق۔ چھوٹی چھوٹی باتوں پر لڑائیاں، بہنوں اور بھائیوں کے درمیان نفاق، ماں اور بیٹے کے مابین نفرت۔ جنسی ناہمواریاں۔ عورت کی تذلیل۔ کھلے بازارعورتوں کا بکنا۔ اور اس قسم کی سینکڑوں لعنتیں، جن سے یہ دنیا ایک زندہ جاوید جہنم ہے۔
شاید میں احتجاج کرناچاہتا تھا۔ شاید میں یہ کہنا چاہتا تھا کہ یہ دنیا مجھے بالکل پسند نہیں۔ اس کا چلن پسندنہیں، اس کی روائتیں پسند نہیں۔ اس کا کاروبار پسند نہیں، شاید اسی نعرہ کو اپنا ایمان بناکر میں افسانہ نگاروں کی صف میں شامل ہوگیا۔
آج افسانے لکھتے لکھتے سترہ اٹھارہ برس گزر چکے ہیں۔ یکایک مجھے محسوس ہو رہا ہے کہ اس افسانہ نگاری سے کیا فائدہ جو انسانی سماج کی بنیادوں کو بدل نہیں سکتا۔ آج شاعر اور افسانہ نگار کتنا بے بس ہے، آج سیاست دان نے چاروں طرف سے یلغار کر دی ہے۔ جو فیصلہ سیاست دان کرتا ہے، وہی ملک کا فرمان بنتا ہے۔
میں نے مغرب کے بڑے بڑے ادیبوں کا مطالعہ کیا ہے، مغربی ادیبوں کی تکنیک کا میرے ذہن پر غیر شعوری طو رپر اثر پڑا۔ نئے نئے خیالوں نے ضرور دماغ کو روشن کیا اور اس طرح زندگی کی نئی قدروں سے ہمکنار ہوا۔ میں نے بالتراک، موپساں، ڈکنز، ٹالسٹائی، دوستووسکی، چیخوف، گورکی، ہیمنگ وے، سٹیسن بک اور اس طرح پریم چند، مولانا ابوالکلام آزاد، ٹیگور اور کرشن چندر کے ادب سے استفادہ کیا۔
اردو کا کلاسیکی شعری ادب واقعی اپنی جگہ پر بے مثال ہے۔ جہاں تک جدید افسانہ نگاری اور ناول نگاری کا تعلق ہے۔ جدید افسانہ تو پریم چند سے شروع ہوتا ہے۔ میں نے سجاد حیدر یلدرم، نیاز فتح پوری اور دیگر افسانہ نگاروں کو ضرور پڑھا ہے، ان ادیبوں کا طرز بیان، اسلوب، اور زبان کی چاشنی اپنی جگہ خوبصورت اور دلکش ہے مگر ان ادیبوں کے افسانے حقیقت نگاری سے بہت دور ہیں۔ کیونکہ ایک ادیب کے لیے، پرانے ادب کا مطالعہ بہت ضروری ہے، چاہے وہ شعری ادب ہو یا افسانوی۔ پرانے لکھنے والوں میں بہت بڑی خوبی یہ تھی کہ انہیں زبان پر بڑی قدرت تھی، ان کے پاس لفظوں کا اتنا بڑا ذخیرہ ہے کہ پڑھ کر عقل دنگ رہ جاتی ہے، زبان کو سنوارنے کے لیے اس کی نوک پلک سدھارنے کے لیے، کلاسیکی ادب کامطالعہ ناگزیر ہے۔
جہاں تک افسانوں یا اچھے ادب کا تعلق ہے، وہ کسی زبان کے ہوں انہیں ضرور پڑھتا ہوں۔ ادب مغربی ہو یا مشرقی، انسان تو صرف ایک ہے۔ تخلیق کرنے والا بھی انسان اور پڑھنے والا بھی انسان۔ اس لیے مشرق اور مغرب کی تفریق کو بے معنی سمجھتا ہوں۔ صرف اپنے ہم وطنوں کی عزت کرنا اور دوسروں کو کمتر سمجھنا، وسیع القلبی کی دلیل نہیں، بلکہ گھٹیا پن ہے۔ اس قسم کے جذبے، ملکی اور نسلی تعصب کو فروغ دیتے ہیں۔ حب الوطنی کا جذبہ قابل احترام ضرور ہے مگر جنگ قابل مذمت ہے۔ اگر میرے دل میں انسان کی عزت نہیں تو انسانیت کے پرچم کو بلند کرنا، انسانیت کی بہت بڑی توہین ہے۔
لکھنا بھی ایک روگ ہے، ایک بار لگ جائے، تو زندگی بھر پیچھا نہ چھوڑے گا۔ جب افسانہ نگاری شروع کی تو نہ شہرت کی طلب تھی، نہ روپوں کی۔ صرف بغاوت اور احتجاج کا جذبہ ذہن میں کارفرما تھا۔ آج شہرت بھی چاہتا ہوں، اور معاوضہ بھی۔ کبھی کبھار لکھنے کی خواہش ذہن پر اتنی حاوی ہوجاتی ہے کہ لکھنے کے سوا اور کوئی چارہ نظر نہیں آتا۔
میں نویں جماعت میں پڑھتا تھا اور وہ بھی لاہور میں۔ ان دنوں کرشن جی اور میں چوک متی میں رہتے تھے۔ وہ تاریخ تو یاد نہیں۔ مگر وہ شام یاد ہے، جس شام بھگت سنگھ کی پھانسی کی خبر سارے قیود و بند کی طنابیں توڑتی ہوئی لاہور میں پھیل گئی اور لوگوں کا جم غفیر لاہور کی گلیوں، کوچوں اور بازاروں میں ابل پڑا۔ وہ کون سی طاقت تھی جو مجھے اس جلوس میں کھینچ لائی اور میں انارکلی سے گزرتا ہوا بھگت سنگھ زندہ باد کے نعرے لگاتا ہوا دریائے راوی کی طرف بڑھا۔ اس دن اس جلوس پر گولی چلائی جا سکتی تھی، شاید میں گولی سے اڑا دیا جاتا۔ میں نے پیدل چوک متی سے دریائے راوی تک سفر کیا، اس رات میں نے بھگت سنگھ کے والد کشن سنگھ کی تقریر سنی۔ وہ واقعہ میرے ذہن میں ایک کیل کی طرح گڑا ہوا ہے۔ اسی طرح مہاتما گاندھی کی شہادت اور لوممبا کے قتل نے میرے دل و دماغ میں آگ سی بھر دی۔
جس دن میں نے لوممبا کے قتل کی خبر اخبار میں پڑھی، میں نیم پاگل سا ہوگیا۔ میں نے اپنے آپ کو سنبھالنے کی کوشش کی کہ میرا لوممبا سے کیا رشتہ ہے۔ نہ وہ میرا بھائی ہے، نہ میرا دوست۔ وہ تو میرا ہم وطن بھی نہیں، اور ہم پیشہ بھی نہیں۔ میں آج تک اس سے نہیں ملا۔ بات تک نہیں کی۔ آخر یہ کون سا جذبہ ہے، جس نے میرے ہوش حواس چھین لیے ہیں۔ آخر کیوں؟ مجھے نیند کیوں نہیں آتی، مجھے کس بات کا دکھ ہے، یہ درست ہے کہ لوممبا کو قتل کیا گیا ہے۔ لیکن میں کیا کرسکتا ہوں، کیا میں بین الاقوامی لیڈر ہوں، کیا میرے احتجاج سے دنیا بدل جائے گی۔
اپنے آپ کو سمجھانے کے باوجود میرا ذہنی انتشار بڑھتا گیا، اور جب تک میں نے ’’سیاہ پیرا‘‘ نہ لکھ لیا، مجھے ذہنی سکون نصیب نہ ہوا۔ ادیب کن واقعات سے متاثر ہوتا ہے، اور کیوں ہوتا ہے۔ اس کا کوئی معقول جواب میرے پاس نہیں۔
میں ایک خاص واقعہ سے متاثر ہوتاہوں، اور دوسرے افسانہ نگار نہیں ہوتے، اور جن واقعات سے دوسرے افسانہ نگار متاثر ہوتے ہیں، میں نہیں ہوتا۔ تخلیق کا اپنا عمل ہوتا ہے۔ اور ہر ادیب کا اپنا مزاج، اپنا خاص رنگ، اور چند اقدار ہوتی ہیں۔ کسی کا مقصدِ حیات ہوتا ہے۔ کسی کا نہیں ہوتا۔ ذاتی پسند اور ناپسند ہوتی ہے۔ ہوسکتا ہے کہ آپ کے ذہن میں مقصد بڑا بلند ہو اور آپ کی تخلیق بڑی گھٹیا ہو۔ موضوع بڑا ہو، جیسے امن یا جنگ۔ مگر یہ ضروری نہیں کہ آپ کی تخلیق بھی عظیم ہو۔ ایک چھوٹے سے جذبے کو غیرفانی شاہکار بنایا جا سکتا ہے۔
میں افسانہ نگار کیوں بنا۔ کسی اور پیشے کو اختیار کر لیتا اور حالانکہ دو چار فلموں میں ہیرو کا رول کرچکا ہوں، اگر زیادہ توجہ ایکٹنگ کی طرف کرتا تو یقیناً میری مالی حالت بہتر ہوتی۔ میری شخصیت (اگر کوئی ہے تو) اس پیشے کو ہضم نہ کرسکی۔
کافی تجزیے کے بعد اس فیصلہ پہ پہنچا ہوں کہ کاغذ اور قلم ہی میرے مقدر میں ہے۔ اپنے غم و الم، اپنے حسن و عشق، اپنی پسند اور ناپسند، اپنی ذہنی بغاوت، اور اس نظامِ زندگی کو بہتر بنانے کے لیے میرا قلم برسرپیکار رہے گا۔ (مجھے اس بات کا پورا علم ہے کہ میں اس مقصد میں کبھی کامیاب نہ ہوں گا) کیا کروں۔
اے آر وائی نیوز کی ڈیجیٹل ڈیسک کی جانب سے شائع کی گئی خبریں


