خواجہ الطاف حسین حالی اردو زبان و ادب اور برصغیر کے مسلمانوں کے ایک عظیم محسن ہیں۔
اس نادرِ روزگار شخصیت کو شاعر، نثر نگار، نقّاد اور مصلح قوم بھی مانا جاتا ہے جنھوں نے ادبی اور معاشرتی سطح پر زندگی کے بدلتے ہوئے تقاضوں کو محسوس کیا اور ادب و معاشرت کو ان تقاضوں سے ہم آہنگ کرنے میں تاریخی کردار ادا کیا۔
یہاں ہم مزاح کے عنوان سے حالی کے ایک نہایت معلوماتی، مفید اور اصلاحی مضمون سے چند اقتباسات پیش کررہے ہیں جسے پڑھ کر اس پر غور و فکر کرنا آج ہمارے لیے پہلے سے کہیں زیادہ ضروری ہوگیا ہے اور اس کی روشنی میں ہمیں معاشرے میں اپنا انفرادی اور اجتماعی کردار، شخصیت اور رویّوں کا جائزہ لینا چاہیے۔ یہی نہیں بلکہ اس مضمون میں غور کیا جائے تو ہم یہ جان سکیں گے کہ آج ہماری ذہنی پستی، گراوٹ اور اخلاقی حالت کے زوال کے اسباب کیا ہیں۔ اقتباسات ملاحظہ کیجیے۔
خواجہ الطاف حسین حالی لکھتے ہیں:
” مزاح جب تک مجلس کا دل خوش کرنے کے لیے (نہ کہ کسی کا دل دکھانے کے لیے) کیا جائے، ایک ٹھنڈی ہوا کا جھونکا یا ایک سہانی خوشبو کی لپٹ ہے جس سے تمام پژ مردہ دل باغ باغ ہو جاتے ہیں۔
ایسا مزاح فلاسفہ و حکما بلکہ اولیا و انبیا نے بھی کیا ہے۔ اس سے مرے ہوئے دل زندہ ہوتے ہیں اور تھوڑی دیر کے لیے تمام پژ مردہ کرنے والے غم غلط ہو جاتے ہیں۔ اس سے جودت اور ذہن کو تیزی ہوتی ہے اور مزاح کرنے والا سب کی نظروں میں محبوب اور مقبول ہوتا ہے۔ بَرخلاف اس کے جب وہ اس حد سے بڑھنے لگتا ہے تو دم بہ دم ہول ناک ہوتا ہے اور آخر کو اس سے بجائے محبّت کے دشمنی اور بجائے خوشی کے غم پیدا ہوتا ہے۔ وہ اخلاق کو اس طرح کھا جاتا ہے جیسے لوہے کو زنگ یا لکڑی کو گھن۔
اسلام نے انسان کی تہذیب اور اصلاح میں کوئی دقیقہ فروگزاشت نہیں کیا، اس نے مزاح کو صرف وہیں تک جائز رکھا ہے جس سے خوشی حاصل ہوتی ہو اور اخلاق پر برااثر نہ پڑتا ہو۔ آں حضرتﷺ فرماتے ہیں کہ ’’میں بھی مزاح کرتا ہوں، مگر کوئی بات بے جا نہیں کہتا۔‘‘ آپﷺ خود بھی کبھی کبھی مزاح فرماتے تھے اور اگر کوئی دوسرا شخص کوئی لطیف مزاح کرتا تھا تو مسکرا کر خاموش ہو جاتے تھے لیکن ہر وقت یا بہت مزاح کرنے کو ناپسند کرتے تھے اور سخریت و استہزا کی سخت ممانعت کرتے تھے۔
یعنی کسی کی حقارت یا پردہ دری کرنی جس پر لوگ ہنسیں یا کسی کی نقل اتارنی یا کوئی اور ایسی بات کرنی جس سے دوسرا شخص ذلیل ہو اور فحش اور سب و لعن کو نہایت مبغوض سمجھتے تھے۔ یہاں تک کہ بتوں کو بھی سَب کرنے سے منع فرماتے تھے۔
ایک بار چند آدمی کفّار کے ان مقتولوں کو جو بدر میں مارے گئے تھے برائی سے یاد کر رہے تھے، آپ سُن کر ناراض ہوئے اور ان کو سخت ممانعت کی۔ آپ نے یہ بھی فرمایا ہے کہ طعن کرنے والا، لعنت کرنے والا، فحش بکنے والا اور بے ہودہ گو مومن نہیں ہے۔
آپﷺ کی ممانعت کا طریقہ ایسا مؤثر تھا کہ جس کو ایک مرتبہ نصیحت کی وہ ساری عمر کے لیے اس برائی سے باز آگیا۔ کتبِ احادیث میں اکثر مثالیں ایسے لوگوں کی موجود ہیں جنھوں نے صرف آپ کی ایک بار کی ممانعت پر تمام عمر فحش وغیرہ زبان سے نہیں نکالا۔
مثلاً ایک مرتبہ آپﷺ نے فرمایا کہ ’’اپنے ماں باپ کو گالی دینا گناہِ عظیم ہے۔‘‘ لوگوں نے عرض کیا کہ ’’حضرت ایسا کون ہوگا جو اپنے ماں باپ کو گالیاں دیتا ہوگا؟‘‘
فرمایا، ’’جو شخص کسی کو ماں باپ کی گالی دے کر اس سے اپنے ماں باپ کو گالیاں دلواتا ہے حقیقت میں وہی ان کا گالیاں دینے والا ہے۔‘‘
اسلام کی یہ تعلیم عرب میں اس قدر پھیلی کہ فحش اور بے شرمی کی باتیں وہاں سے گویا بالکل مفقود ہو گئیں۔”