تازہ ترین

ایرانی صدر ابراہیم رئیسی کی کراچی آمد، مزار قائد پر حاضری

کراچی: پاکستان کے تین روزہ سرکاری دورے پر موجود...

ایرانی صدر کی مزار اقبال پر حاضری، پھول چڑھائے اور فاتحہ خوانی کی

لاہور: ایران کے صدر ابراہیم رئیسی کی لاہور آمد...

پاک ایران سرحد پر باہمی رابطے مضبوط کرنے کی ضرورت ہے، آرمی چیف

راولپنڈی: آرمی چیف جنرل عاصم منیر کا کہنا ہے...

پی ٹی آئی دورِحکومت کی کابینہ ارکان کے نام ای سی ایل سے خارج

وفاقی حکومت نے پی ٹی آئی دورِحکومت کی وفاقی...

دو مہمان….

تحریر: کاشف شمیم صدیقی

مہمان نوازی کیا ہوتی ہے، کوئی ہمارے ہردل عزیز دوست قوی (ذوالقرنین) سے پوچھے۔ جوں ہی پتا چلا کہ بڑے بھائی کی فیملی امریکا سے کراچی آرہی ہے، لگے گھر کو سجانے سنوارنے۔

جن کمروں میں مہمانوں کو ٹھہرانا تھا اُن کے ساتھ ساتھ پورے گھر کو رنگ کروا دیا۔ فرنیچر بھی بدلوا دیا۔ کمروں کے ایئرکنڈیشنر اور گھر میں کھڑی گاڑی کی پرفارمنس کچھ مشکوک محسوس ہوئی تو مکینک کے حوالے کردیا۔ مہمانوں کی پسند کا خیال رکھتے ہوئے کچن کے حوالے سے بھی خوب تیاری کر لی گئی تھی۔

مہمان آئیں اور ’’رت جگے“ نہ ہوں، ایسا کیسے ممکن تھا! چناں چہ نہ صرف بہترین قسم کے خشک میوہ جات اور ماحول کو مزید پُرلطف بنانے کے لیے بڑوں اور بچوں کی تفریح اور پسند کا خیال رکھتے ہوئے غزلوں اور کارٹون فلموں کی سی ڈیز منگوا لی تھیں۔ غرض کہ اپنی طرف سے کوئی کسر نہ چھوڑی۔

پھر مہمان آئے، پورے تیس دن رہے اور پتا ہی نہیں چلا کہ کب وقتِ رخصت آیا، مہمان جب واپس امریکا جانے لگے تو بہت خوش اور مطمئن تھے۔ قوی اور اس کے گھر والوں نے واقعی کسی بھی قسم کی تکلیف اور پریشانی نہیں ہونے دی تھی، ہر دم اُن کا بھرپور خیال رکھا تھا۔ یہ سب دیکھ کر دل سے یہی دعا نکلی کہ اے خدا ہمیں بھی ایسی مہمان نوازی کی توفیق عطا فرما۔

رمضان المبارک کا چاند نظر آگیا تھا۔ عشا کی نماز کے بعد مبارک باد کا سلسلہ تھما تو سوچا قوی سے مل کر آجاؤں، کافی دنوں سے ملاقات نہیں ہو پائی تھی۔ ماہِ رمضان کی مبارک باد بھی دے دی جاتی اور خیریت بھی دریافت کرلیتا، بس یہی سوچ کر قدم اُس کے گھر کی طرف بڑھا دیے۔ وہ بہت خوش ہوا اور سلام دعا کے بعد بات چیت کا سلسلہ شروع ہوا!

اور سناؤ قوی! رمضان میں تو آفس کے اوقات کارِ کم ہو گئے ہوں گے، اب تو واپسی جلد ہو جایا کرے گی۔

ٹائمنگ کا تو کچھ خاص پتا نہیں کیوں کہ میں نے تو آفس سے ایک ماہ کی رخصت لے رکھی ہے۔ اس نے جواب دیا۔

اچھا۔۔ وہ کیوں، سب خیریت تو ہے؟

ہاں، سب خیریت ہی ہے۔ صدیقی سچ پو چھو تو مجھ سے روزے رکھ کر آفس نہیں جایا جاتا، نقاہت سی رہتی ہے سارا دن، کسی کام میں دل نہیں لگتا، (چالیس
سال کی عمر میں اچانک رمضان کے موقع پر پیدا ہوجانے والی یہ کم زوری سمجھ سے بالا تر تھی۔)

لیکن گھر میں رہ کر بھی تو تم بوریت ہی محسوس کرو گے۔ میں نے بات جاری رکھتے ہوئے کہا۔

آں۔ نہیں شاید وقت گزرنے کا اتنا پتا نہ چلے۔

وہ کیسے؟ میں نے پُر تجسس انداز میں دریافت کیا۔

بھائی! دن بھر کوئی کام کاج تو ہو گا نہیں، تو سوچا ہے کہ فجر پڑھ کر سو جاؤں گا، اور پھر جب شام کو سو کر اُٹھوں گا تو عصر سے پہلے ظہر کی نماز بھی
پڑھ لوں گا۔

کیا مطلب۔ تم صبح سے شام تک سوتے ہی رہو گے۔ میں نے کافی حیرت سے پوچھا تھا۔

تو جاگ کر کرنا بھی کیا ہے۔ جواب انتہائی معصومانہ تھا۔

اور عصر کے بعد کا کیا پروگرام ہے۔ کیا پھر سو جاؤ گے۔ نہ چاہتے ہوئے بھی میرے لہجے میں طنز تھا۔

ارے نہیں یار، عصر سے مغرب کا وقت تو صرف دیکھنے، دیکھنے کا ہوتا ہے، اور پھر بازار جا کر اپنے لیے افطار کا سامان بھی تو لانا ہوتا ہے۔

کیوں۔۔ گھر میں کچھ نہیں بنتا؟

اب مجھ اکیلے کے لیے بھلا کیا بنے گا!

اکیلے کیوں۔ بھابھی اور بچے بھی تو ہیں۔

تم تو جانتے ہی ہو بھابھی تمہاری شوگر کی مریض ہیں، اس لیے روزے نہیں رکھتیں، اور بچوں کا تو پوچھو ہی مت، ہر تین، چار گھنٹے بعد اگر کھانے کو کچھ نہ ملے تو بس آپے سے ہی باہر ہو جاتے ہیں۔

تو سمجھاؤ اُنہیں، کچھ احساس دلاؤ۔

ارے، بہت بگڑے ہوئے ہیں، لاکھ سمجھایا لیکن مجال ہے جو کسی کی سن لیں، اب تو میں نے کہنا ہی چھوڑ دیا ہے۔ قوی نے نہایت صفائی سے اپنا دامن بچایا تھا۔

قوی میں نے سوچا ہے کہ اس بار تراویح تمہاری طرف والی مسجد میں ادا کی جائے، اس طرح کچھ واک بھی ہو جائے گی اور واپسی پر ہم ساتھ پان بھی کھا لیا کریں گے۔

یار صدیقی، پان تو میں تمہارے ساتھ ضرور کھاتا، لیکن اب کیا بتاؤں کہ افطار کے بعد ایسا پیٹ پھولتا ہے کہ کہیں آنے، جانے کی ہمت باقی نہیں رہتی، دل چاہتا ہے کہ بس لیٹا ہی رہوں۔

تو پھر عشا کی نماز اور تراویح؟؟

اب ایسی حالت میں تراویح پڑھنا تو ممکن نہیں ہوگا البتہ عشا کی نماز میں گھر پر ہی ادا کر لوں گا۔ قوی نے نظریں چُراتے ہوئے اپنی بات مکمل کی تھی۔

رمضان میں قوی کے اس پروگرام پر حیرت کی جائے یا افسوس، بس یہی سوچتے ہوئے میں نے اُس سے اجازت چاہی اور گھر واپس آگیا۔

دو مہمانوں کی مہمان نوای میں یہ واضح تفریق یقینا ایک سوالیہ نشان تھی۔ خالق کائنات کے بھیجے گئے خاص اور اہم مہمان کی بخوشی واپسی اتنی غیر اہم کیوں تھی؟ کیوں دوسرے مہمان کی حرمت، عزت اور حق ادائیگی کا خیال نہیں رکھا جا رہا تھا؟ یہ سب سوچتے ہوئے دل سے یہ دعا بھی نکلی کہ اے خدا ہمیں ایسا میزبان بنا دے کہ آنے والے ہر مہمان کی مہمان نوازی اس طرح کریں کہ سب اپنی واپسی پر ہم سے نہال ہوں۔

(کاشف شمیم صدیقی شاعر اور کالم نگار ہیں، کراچی یونیورسٹی سے معاشیات میں ماسٹرز کی ڈگری حاصل کر چکے ہیں، شعبہ صحافت سے وابستگی کو اپنی زندگی میں پیدا ہونے والی مثبت تبدیلیوں کا موجب گردانتے ہیں۔)

Comments

- Advertisement -