غلام علی ہمدانی نے شاعری شروع کی تو تخلص مصحفیؔ کیا اور غزل گو شعرا میں اپنے جداگانہ انداز سے نام و مقام بنایا۔
کہتے ہیں امروہہ کے تھے، لیکن چند تذکرہ نویسوں نے انھیں دہلی کے نواحی علاقے کا رہائشی لکھا ہے۔ ان کا سن پیدائش 1751 ہے جب کہ 1824 کو دنیا سے رخصت ہوئے۔ تذکروں میں آیا ہے کہ ہندوستان میں سلطنت کا زوال اور ابتری پھیلی تو ان کا خاندان بھی خوش حال نہ رہا اور مصحفیؔ کو بھی مالی مشکلات کے ساتھ روزگار کی تلاش میں بھٹکنا پڑا۔ اس سلسلے میں دہلی آئے اور یہاں تلاشِ معاش کے ساتھ ساتھ اہلِ علم کی صحبت میں بیٹھنے کا موقع ملا تو شعری ذوق بھی نکھرا۔ مصحفی کے کلام سے یہ غزل آپ کے ذوق مطالعہ کی نذر ہے۔
جب تک یہ محبت میں بد نام نہیں ہوتا
اس دل کے تئیں ہرگز آرام نہیں ہوتا
کب وعدہ نہیں کرتیں ملنے کا تری آنکھیں
کس روز نگاہوں میں پیغام نہیں ہوتا
بال اپنے بڑھاتے ہیں کس واسطے دیوانے
کیا شہرِ محبت میں حجام نہیں ہوتا
ساقی کے تلطف نے عالم کو چھکایا ہے
لبریز ہمارا ہی اک جام نہیں ہوتا
کیوں تیرگئ طالع کچھ تُو بھی نہیں کرتی
یہ روز مصیبت کا کیوں شام نہیں ہوتا
پھر میری کمند اس نے ڈالے ہی تڑائی ہے
وہ آہوئے رَم خوردہ پھر رام نہیں ہوتا
نے عشق کے قابل ہیں، نے زہد کے درخور ہیں
اے مصحفیؔ اب ہم سے کچھ کام نہیں ہوتا