تازہ ترین

کاروباری شخصیت کی وزیراعظم کو بانی پی ٹی آئی سے ہاتھ ملانے کی تجویز

کراچی: وزیراعظم شہباز شریف کو کاروباری شخصیت عارف حبیب...

وزیراعظم شہباز شریف کی مزار قائد پر حاضری

وزیراعظم شہباز شریف ایک روزہ دورے پر کراچی پہنچ...

ایران کے صدر ڈاکٹر ابراہیم رئیسی دورہ پاکستان مکمل کرکے واپس روانہ

کراچی: ایران کے صدر ڈاکٹر ابراہیم رئیسی دورہ پاکستان...

پاک ایران تجارتی معاہدے پر امریکا کا اہم بیان آگیا

واشنگٹن : نائب ترجمان امریکی محکمہ خارجہ کا کہنا...

"کون کیا ہے؟”

"کون کیا ہے” (who Is Who) کے عنوان سے مشہور ہستیوں کے حالاتِ زندگی اکثر چھپتے ہیں، جنہیں بیش تر لوگ زیادہ شوق سے نہیں پڑھتے اور اکثر شکایت کرتے ہیں کہ کچھ تشنگی سی رہ جاتی ہے۔ شاید اس لیے کہ فقط اُن ہستیوں کا ذکر کیا جاتا ہے جنہیں پبلک پہلے سے جانتی ہے، یا اس لیے کہ ان ہستیوں کی فقط تعریفیں ہی تعریفیں کی جاتی ہیں۔

زمانہ بدل چکا ہے۔ قدریں بھی بدل چکی ہیں۔ غالباً ان دنوں پڑھنے والے سوانح عمری کی سرخیاں ہی نہیں جاننا چاہتے۔ وہ کچھ اور باتیں بھی معلوم کرنا چاہتے ہیں اور یہ کہ ان کی رائے میں غیر معروف ہستیاں بھی توجہ کی مستحق ہیں۔

چناں چہ نئے تقاضوں کو مدِنظر رکھتے ہوئے "کون کیا ہے” کچھ یوں بھی مرتب کیا جا سکتا ہے:

ذکی الحِس۔ نئی دہلوی

اوائلِ جوانی میں (لگاتار سگریٹ اور چائے نوشی سے) کافی بیزار رہے۔ پھر آہستہ آہستہ عادت پڑ گئی۔

60ء میں ایک دن اچھے بھلے بیٹھے تھے۔ پتہ نہیں کیا ہوا کہ یکایک نقاد بن گئے۔ تب سے نقاد ہیں اور کافی ہاؤس یا چائے خانوں میں رہتے ہیں۔ کبھی کبھار حجامت کے سلسلے میں اپنے گھر چلے جاتے ہیں۔

ادبی رسائل کے شروع شروع کے پچیس تیس صفحات آپ کی تنقیدوں کے لیے مخصوص ہو چکے ہیں۔ (جنہیں ایم۔ اے اردو کے طلباء کو مجبوراً پڑھنا پڑتا ہے۔)

67ء میں کسی نے کہا کہ اردو ادب پر ان کی تنقیدوں کے صفحات تلوائے جائیں اور پھر سارے ادب کا وزن کیا جائے تو تنقیدیں کہیں بھاری نکلیں گی۔ آپ اسے شاباش سمجھ کر بہت خوش ہوئے اور رفتار دُگنی کر دی۔

یہ اردو نثر کی خوش قسمتی ہے کہ آپ اسے زیادہ نہیں چھیڑتے۔ آپ کا بیش تر وقت اردو شاعری کی خبر لینے میں گزرتا ہے۔

ان دنوں پی ایچ ڈی کے لیے مقالہ لکھ رہے ہیں جس کا لُبِ لباب یہ ہے کہ غالب کی شاعری پر رنگین کا اثر غالب ہے۔ رنگین نے بیش تر موضوع مصحفی سے اخذ کیے۔ مصحفی کی شاعری کا ماخذ میر کا تخیل ہے جنہوں نے بہت کچھ سراج دکنی سے لیا۔ سراج دکنی نے ولی دکنی سے اور ولی دکنی نے سب کچھ دکن سے چُرایا۔ (چوں کہ مقالہ رسائل کے لیے نہیں، یونیورسٹی کے لیے ہے، اس لیے آپ نے شعرا کو اتنا بُرا بھلا نہیں کہا جتنا کہ اکثر کہا کرتے ہیں۔)

اگر چائے اور سگرٹوں میں غذائیت ہوتی تو آپ کبھی کے پہلوان بن چکے ہوتے، مگر حقیقت یہ ہے کہ آپ کی صحت کو دیکھ کر بڑی آسانی سے عبرت حاصل کی جا سکتی ہے۔

دراصل آپ کے رویّے (اور تنقید) کا دار و مدار سگرٹوں اور چائے کی پیالیوں کی تعداد پر ہے۔ روزانہ پچاس سگرٹوں اور پچیس پیالیوں تک تو آپ شاعری کے گناہ معاف کر سکتے ہیں، لیکن اس کے بعد آزاد شاعری تک کو نہیں بخشتے۔

68ء میں آپ کو یونہی وہم سا ہو گیا تھا کہ آپ عوام میں مقبول نہیں ہیں، لیکن چھان بین کرنے کے بعد 69ء میں معلوم ہوا کہ وہم بے بنیاد تھا۔ فقط وہ، جو اِنہیں اچھی طرح نہیں جانتے، اِنہیں نظر انداز کرتے ہیں، لیکن جو جانتے ہیں، وہ باقاعدہ ناپسند کرتے ہیں۔

اپنے آپ کو (پتہ نہیں کیوں) مظلوم اور ستایا ہوا سمجھتے ہیں اور اکثر زندگی کی محرومیوں کی داستان (کافی ہاؤس میں) سنایا کرتے ہیں جس کا خلاصہ کچھ یوں ہے : پہلے ان کے خواب تمام ہوئے۔ پھر دانت تمام ہوئے۔ پھر دوست تمام ہوئے (کم از کم آپ کا یہی خیال تھا کہ وہ دوست تھے)۔ اکثر کہا کرتے ہیں کہ آپ کو بنی نوعِ انسان سے قطعاً نفرت نہیں، فقط انسان اچھے نہیں لگتے۔

کھیل کُود کو انٹلکچوئل پنے کا دشمن سمجھتے ہیں۔ یہاں تک کہ لمبے لمبے سانس لینے سے بھی نفرت ہے۔


(مشہور مزاح نگار شفیق الرحمٰن کے قلم سے ایک شگفتہ پارہ)

Comments

- Advertisement -