تازہ ترین

حکومت کا ججز کے خط پر انکوائری کمیشن بنانے کا اعلان

اسلام آباد: وفاقی حکومت نے اسلام آباد ہائی کورٹ...

فوجی عدالتوں سے 15 سے 20 ملزمان کے رہا ہونے کا امکان

اسلام آباد : اٹارنی جنرل نے فوجی عدالتوں سے...

یک نہ شد دو شُد!

آپ نے یہ کہاوت تو سنی ہی ہو گی، اور اس کے لفظی معنیٰ بھی جانتے ہوں‌ گے۔

یہ کہاوت اس وقت سننے کو ملتی ہے جب کوئی شخص ایک مسئلے یا مصیبت میں‌ گھرا ہوا ہو اور اسی وقت دوسری افتاد بھی ٹوٹ پڑے۔ یعنی جب کوئی ایک مسئلہ حل نہ ہوا ہو یا کسی ایک مصیبت سے نجات ملی نہ ہو اور اسی وقت دوسری مصیبت سَر پر آجائے تو اس کیفیت کا اظہار کرنے لیے اردو میں اس کہاوت سے کام لیا جاتا ہے۔

ہر کہاوت کے پیچھے کوئی نہ کوئی کہانی، اس کی وجہ یا اس کا پس منظر ضرور ہوتا ہے۔ یہ حقیقی بھی ہوسکتی ہیں‌ اور داستان یا گھڑی ہوئی باتیں‌ بھی۔ ہماری اس کہاوت سے متعلق زیادہ مشہور بات یقینا غیر حقیقی اور من گھڑت ہے، مگر ہمارے ہاں‌ یہ قصہ اس طرح‌ مشہور ہے:

کہتے ہیں‌ کہ ایک شخص ایسا منتر جانتا تھا جس سے وہ مُردوں کو اٹھا کر ان سے سوالات کرتا اور اپنا مطلب پورا ہو جانے پر انھیں‌ دوبارہ جادو کے زور پر قبر میں جانے پر مجبور کر دیتا۔ وہ شخص جب مرنے لگا تو اس نے اپنے ایک شاگرد کو یہ جادو سکھا دیا۔

اس کے مرنے کے کچھ عرصے بعد شاگرد نے ایک قبر پر جا کر یہ منتر پڑھا اور مردے سے باتیں کیں، لیکن مردے کو دوبارہ قبر میں داخل کرنے کا منتر بھول گیا۔

اب وہ بہت گھبرایا اور اسی گھبراہٹ میں اچانک اسے قبرستان سے بھاگنے کا خیال آیا، اس نے سوچے سمجھے بغیر اچانک دوڑ لگا دی، مگر کچھ دور جانے کے بعد پلٹ کر دیکھا تو وہ مردہ بھی اس کے پیچھے پیچھے آرہا تھا جسے اس نے منتر کے زور سے جگایا تھا۔ وہ جہاں جہاں‌ جاتا مردہ اس کے پیچھے ہوتا۔ اس دوران اس نے استاد کا سکھایا ہوا وہ منتر یاد کرنے کی بہت کوشش کی، جس سے مردے کو واپس قبر میں‌ بھیجا جاسکتا تھا، لیکن ناکام رہا۔

تب اسے ایک ترکیب سوجھی۔ وہ استاد کی قبر پر پہنچا اور مردے کو اٹھانے کا منتر پڑھا، استاد کے قبر سے نکلنے پر اس نے وہ دوسرا منتر پوچھا جو مردے کو قبر میں‌ بھیجتا، لیکن معلوم ہوا کہ مرحوم استاد جس دنیا میں پہنچ چکے تھے، وہاں ایسا کوئی منتر اور جادو یاد نہیں‌ رہتا تھا۔

شاگرد نے دیکھا کہ ایک طرف وہ پہلا مردہ کھڑا ہے اور دوسری طرف استاد جسے اس نے دوسرا منتر پوچھنے کے لیے جگایا تھا۔ اب تو وہ بہت پچھتایا، مگر اس بار بھاگنے کے سوا واقعی کوئی راستہ نہ بچا تھا۔

شاگرد "یک نہ شد دو شد” کہتا ہوا ایک بار پھر بھاگ کھڑا ہوا۔

Comments

- Advertisement -