دروازہ کسی بھی مکان کا بے حد اہم حصّہ ہوتا ہے کہ اُسی کے ذریعے آمد و رفت ممکن ہوتی ہے۔
دروازے کو سجایا جاتا ہے، جانے والے کو دروازے تک پہنچایا جاتا ہے اور آنے والے کا دروازے پر استقبال کیا جاتا ہے۔ چوکھٹ کا تعلق خاص طور پر دروازے سے ہوتا ہے اور چوکھٹ بڑے احترام کی چیز ہوتی ہے۔
قدیم قوموں میں دروازے کو سجدۂ احترام بھی کیا جاتا تھا۔ ہندوؤں میں چوکھٹ کا پوجن بھی ہوتا ہے، اسے تلک لگاتے ہیں، بند دروازے کاغذوں سے سجاتے ہیں۔
بعض قدیم گھروں پر جو دروازے ہوتے ہیں، ان پر ہاتھی گھوڑے بنے ہوتے ہیں اور یہ بھی کہا جاتا رہا ہے کہ اُن کے دروازے پر ہاتھی جھُولتے ہیں۔ دربان بھی دروازوں ہی سے تعلق رکھتے ہیں۔
دروازے کو ویران کرنا گویا اس گھر اس خاندان کی عزت لے لینا ہے۔ اسی لیے دروازے کی مٹی ایک خاص معنی اختیار کر لیتی ہے۔
دروازے کی مٹی لے ڈالنا اسی طرف اشارہ کرنے والا محاورہ ہے۔ اسے چرنجی لال نے لیولے بھی کہا ہے جسے مغربی یوپی والے اپنے تلفظ کے اعتبار سے ’’لیوڑنے‘‘ بھی کہتے ہیں اور ’’لیوڑے ڈالنا‘‘ مٹی کی تہوں کو بھی اٹھا اٹھا کر، اکھاڑ اکھاڑ کر لے جانے کے عمل کی طرف اشارہ ہے جس کے معنی یہ ہوتے ہیں کہ اُس گھر میں کچھ نہیں چھوڑا اور جو ہاتھ لگا اٹھا کر اسے لے گئے۔
اِس (محاورے) سے ہم اپنے معاشرے کے مزاج اور بعض سماجی رویوں کو سمجھ سکتے ہیں۔
(یہ پارہ اُردو محاورات کا تہذیبی مطالعہ سے لیا گیا ہے، جو ڈاکٹر عشرت جہاں ہاشمی کی تصنیف ہے)