اردو کے بعض اُمّی اور کم سواد شعرا کا کچھ کلام بھی ہمیں پڑھنے کو ملتا ہے جن کا آج شاذ ہی تذکرہ ہوتا ہے۔ یہ وہ نام ہیں جنھیں علمی اور ادبی فضا میسر آئی اور شعر و سخن میں دل چسپی کے ساتھ موزونی طبع کے سبب فکرِ سخن کرنے لگے۔ لیکن اپنی پہچان اور شناخت قائم نہ کر سکے۔
بنّو دہلوی انہی میں سے ایک تھی جس کا مختصر تعارف اور نمونۂ کلام پیشِ خدمت ہے۔ بطور شاعرہ اس کے تعارف کے ساتھ عشق اور محبت کا المیہ بھی دیکھیے۔ یہ مختصر پارہ شاہ عزیز الکلام کی تحقیقی کتاب سے لیا گیا ہے۔ وہ لکھتے ہیں:
بنّو نام اور بنّو ہی تخلص تھا۔ دلّی کی رہنے والی تھی۔ نہایت خوبصورت، جادو بیان، سراپا ناز و شوخ و طناز بھی۔ دلّی ہی کے ایک خوبصورت اور زود گو شاعر گلاب سنگھ آشفتہ سے اُس کی شناسائی ہو گئی تھی۔ رابطہ اتحادِ جانبین بہ درجۂ کمال تھا۔ آشفتہ کو اپنی محبوبہ بنّو سے دوری اس درجہ شاق تھی کہ اس نے اپنے گلے پر خنجر پھیر کر خود کو ہلاک کر لیا۔ جب اس شاہدِ عاشق مزاج کو اس حادثۂ جاں کاہ کی خبر ہوئی تو بہت غمگین و پریشان ہوئی۔ فی الفور زبان پر یہ شعر لائی:
بچتا نہیں ہے کوئی بھی بیمار عشق کا
يا رب نہ ہو کسی کو یہ آزار عشق کا
بنّو پر اپنے عاشق کی اس طرح خود کشی کا بہت گہرا اثر ہوا۔ اس نے اسی روز سے لہو لعب اور منشیات کے استعمال سے توبہ کر لی اور گوشۂ تنہائی اختیار کر لی۔ غالب کا یہ شعر اس کے حسبِ حال ہوا۔
کی مرے قتل کے بعد اس نے جفا سے توبہ
ہائے اس زود پشیماں کا پشیماں ہونا
آشفتہ کی جدائی نے جلد ہی اثر دکھایا۔ غم کی زیادتی سے نوبت یہاں تک پہنچی کہ بنّو کو بخار رہنے لگا۔ بالآخر انجام وہی ہوا جو ہونا چاہیے تھا۔ جو مرض دق میں مبتلا ہوئی اور آشفتہ کی موت کے کچھ ماہ بعد خود بھی راہیِ ملکِ عدم ہوگئی۔
نمونۂ کلام:
میں تپِ غم سے جلوں اور یہ کریں دق کا علاج
ہو سمجھ الٹی طبیبوں کی تو کیا اس کا علاج
چھوڑ کر مجھ کو کہاں اے بتِ گم راہ چلا
تو چلا کیا کہ یہ دل بھی ترے ہمراہ چلا
نہ تو موت آتی ہے نے زیست کا یارا مجھ کو
ہائے آشفتہ تیرے مرنے نے مارا مجھ کو
اے آر وائی نیوز کی ڈیجیٹل ڈیسک کی جانب سے شائع کی گئی خبریں


