اردو زبان و ادب میں نوح ناروی کو ایک کہنہ مشق اور استاد شاعر کے طور پر تو یاد کیا ہی جاتا ہے، لیکن داغ دہلوی کی جانشینی اُن کا طرّۂ امتیاز ہے۔ نوح ناروی اردو کے مشہور استاد شاعر حضرت داغ کے تلامذہ میں سے ایک تھے۔
نوح ناروی نے اردو شاعری میں روایتی موضوعات اور عام بندشوں کو اپنے مخصوص کلاسیکی رنگ میں جس خوب صورتی سے پیش کیا، وہ انھیں حضرتِ داغ کا قابل اور باصلاحیت شاگرد ثابت کرتی ہے۔ وہ اردو کے اُن شعراء میں سے ہیں جس نے اپنے تخلّص کی رعایت سے خوب اشعار نکالے اور ان کے مجموعہ ہائے کلام بھی اسی تخلّص کی مناسبت سے بعنوان سفینۂ نوح ، طوفانِ نوح ، اعجازِ نوح شایع ہوئے۔
اردو زبان کے اس شاعر کا اصل نام محمد نوح تھا۔ انھوں نے یہی تخلّص اختیار کیا۔ تذکروں میں ان کا سنہ پیدائش 1878ء لکھا ہے۔ نوح ناروی کا آبائی علاقہ ضلع رائے بریلی تھا۔ دست یاب معلومات کے مطابق نوح ناروی کی ابتدائی تعلیم گھر پر ہوئی، بعد میں انھوں نے میر نجف علی سے فارسی، عربی کا درس لیا اور ان زبانوں پر قدرت حاصل کی۔
نوح ناروی استاد حضرت داغ دہلوی کے شاگرد تھے، اور اُن کے کلام پر بھی داغ جیسا بانکپن اور وہ بے باکی غالب ہے جس کے لیے داغ مشہور تھے۔ نوح ناروی نے اردو حسن و عشق کے موضوعات کو نہایت خوب صورتی اور نزاکت سے نبھایا۔
یہاں ہم نوح صاحب سے متعلق ایک قصّہ نقل کررہے ہیں جو اُن کے استاد داغ دہلوی کی شاعرانہ عظمت کے ساتھ نوح ناروی کی اِس نسبت سے پذیرائی کو بیان کرتا ہے۔ یہ قصّہ پنڈت رتن پنڈوری نے بیان کیا ہے۔ وہ لکھتے ہیں، نواب حامد علی خاں والیِ رامپور کے ہاں مشاعرے میں نوح ناروی صاحب کو ایک دفعہ شریک ہونے کا اتفاق ہوا۔ اس وقت منشی امیر اللہ تسلیم لکھنوی زندہ تھے۔ نوح ناروی مشاعرہ ختم ہونے کے بعد تسلیم صاحب کی خدمت میں پہنچے کیونکہ وہ پیرانہ سالی کے سبب شریک مشاعرہ نہیں ہوسکے تھے۔ جا کر دیکھا کہ تسلیم صاحب چارپائی پر آنکھیں بند کیے ہوئے لیٹے ہیں۔
نوح ناروی صاحب جا کر پیر دبانے لگے۔ تسلیم صاحب نے آنکھیں کھول دیں اور حالات پوچھنے لگے جب انہیں معلوم ہوا کہ نوح ناروی، حضرت داغ دہلوی کے شاگرد ہیں تو فرمایا ’’تم نے انہیں دیکھا بھی ہے یا خط کتابت کے ذریعے شاگرد ہوئے ہو؟‘‘ نوح صاحب نے کہا ’’میں بہت دنوں تک ان کی خدمت میں رہا ہوں۔‘‘ یہ سن کر تسلیم صاحب نے کہا ’’ذرا مجھے سہارا دے کر بٹھاؤ‘‘
نوح صاحب نے سہارا دیا تو وہ اٹھ کر بیٹھ گئے اور کہا، ’’میری انگلیوں کو اپنی آنکھوں پر رکھو۔‘‘ نوح صاحب نے ان کی انگلیاں آنکھوں پر رکھیں، دوتین منٹ کے بعد وہ اپنی انگلیوں کو نوح صاحب کی آنکھوں سے ہٹا کر چومنے لگے اور فرمایا ’’تمہاری ان آنکھوں نے میرے دوست کو دیکھا ہے، اس باعث میں نے بوسہ لیا۔ ‘‘اور یہ کہہ کر اپنی آنکھوں میں آنسو بھر لائے۔ اس کے بعد نوح ناروی صاحب کے چند شعر سنے اور تعریف کی۔
نوح ناروی نے 1962ء میں آج ہی دن انتقال کیا۔ حضرت نوح ناروی کے چند اشعار قارئین کے ذوق کی تسکین کے لیے پیش ہیں۔
ادا آئی، جفا آئی، غرور آیا، حجاب آیا
ہزاروں آفتیں لے کر حسینوں پر شباب آیا
محفل میں تیری آ کے یوں بے آبرو ہوئے
پہلے تھے آپ، آپ سے تم، تم سے تُو ہوئے
ہم انتظار کریں ہم کو اتنی تاب نہیں
پلا دو تم ہمیں پانی اگر شراب نہیں
آج آئیں گے، کل آئیں گے، کل آئیں گے آج آئیں گے
مدت سے یہی وہ کہتے ہیں، مدت سے یہی ہم سنتے ہیں