بدھ, دسمبر 4, 2024
اشتہار

پہلی صاحبِ دیوان شاعرہ ماہ لقا چندا بائی یا لطف النساء بیگم؟

اشتہار

حیرت انگیز

دکن ابتدا سے ہی بادشاہ و نوابین کا گڑھ رہا ہے اور اردو زبان کے فروغ میں ان کا کلیدی کردار رہا ہے۔ اس ضمن میں خاص طور سے قطب شاہی اور عادل شاہی دور کا تذکرہ ہمیں پڑھنے کو ملتا ہے اور یہ حکمران خود بھی شعر و شاعری کا اعلٰی ذوق رکھتے تھے۔

اس دور کی بہت سی ایسی خواتین کے نام بھی سامنے آتے ہیں جن کے ذکر کے بغیر اردو زبان و ادب کی تاریخ مکمل نہیں ہو سکتی۔ اردو زبان و ادب میں دو شاعرات ایسی گزری ہیں جنہیں اردو کی اوّلین دور کی شاعرات کہا جا سکتا ہے۔ ماہ لقا چندا بائی اور لطف النساء بیگم۔ ماہ لقا چندا بائی کا ذکر تو تاریخ میں ملتا ہے اور ان پر کئی تحقیقی مضامین بھی لکھے گئے ہیں۔ ان کا دیوان بھی شایع ہو چکا ہے۔ لیکن لطف النساء بیگم متخلص بہ امتیاز کے حالاتِ زندگی اور ان کے کلام پر تحقیقی کام اور کلیات کی اشاعت پہلی بار 2005 میں ہوئی اور ان کے دیوان کا واحد قلمی نسخہ کتب خانہ حیدرآباد (دکن) میں موجود ہے۔ اس ضمن میں نصیرالدین ہاشمی نے 1958 میں سب سے پہلے امتیاز کا مختصر تعارف اس طرح کرایا ہے: ’’امتیاز دکن کا شاعر تھا ہم کو یہ نہیں معلوم کہ وہ کس کا شاگرد تھا۔ اس کا حال کسی قدیم یا جدید تذکرے میں نہیں ہے۔ آخری شعر میں لفظ ’’کنیز‘‘ آیا ہے۔ اس سے خیال ہوتا ہے ممکن ہے کہ امتیاز کوئی شاعرہ ہو‘‘۔ آگے چل کر نصیرالدین ہاشمی اپنی کتاب ’’دکن میں اردو ‘‘ میں لکھتے ہیں: ’’لطف النساء بیگم نام اور تخلص امتیاز تھا، ان کا وطن حیدر آباد تھا، ماں کا انتقال بچپن میں ہی ہوگیا تھا۔ ان کی پرورش شاہی خاندان میں ہوئی اور اسد علی خاں تمنا سے ان کی شادی ہوئی۔ مگر جوانی میں ہی بیوہ ہو گئیں۔‘‘ ان کے بارے میں زیادہ تر ادبی تذکرہ نویس کچھ نہیں‌ جانتے جس کی وجہ سے ایک عرصے تک ماہ لقا چندا بائی کو اردو کی پہلی صاحبِ دیوان شاعرہ سمجھا جاتا رہا۔ لیکن دیوانِ امتیاز دست یاب ہونے کے بعد پہلی صاحب ِدیوان شاعرہ ہونے کا سہرا امتیاز کے سَر باندھا جانے لگا ہے۔ اس پر اختلاف بہرحال ابھی رہے گا۔ 1993 میں امتیاز اور ان کی شاعری پر ڈاکٹر اشرف رفیع نے ایک تفصیلی مضمون تحریر کیا۔ اس مضمون میں وہ لکھتے ہیں: ’’کل کی تحقیق نے ماہ لقا چندا بائی کو پہلی صاحبِ دیوان شاعرہ کا رتبہ عطا کیا، مگر آج اسی تحقیق نے لطف النساء امتیاز کے سر پر اوّلیت کا تاج رکھا ہے۔‘‘

امتیاز کے حالات زندگی جو بھی دست یاب ہوئے ان کا ماخذ ان کے دیوان میں موجود مثنوی ہے۔ اس مثنوی میں ہمیں امتیاز کی پیدائش سے لے کر حیدرآباد (دکن) منتقل ہونے تک کا ذکر تفصیل سے ملتا ہے۔ ناقدین نے ان کو قادرالکلام اور پُر گو شاعرہ کہا ہے جنہیں‌ کم و بیش ساری اصناف پر عبور حاصل تھا جو اس دور میں‌ رائج رہی ہیں۔ ان کے دیوان سے چند اشعار مثال کے طور پر ملاحظہ ہوں:

- Advertisement -

ہے زیب آور تخت و ہ تاج دار

سکندر مثال و سلیمان عصر

ہے دارائے ثانی شہ نامدار

ہے آصف اسی دور کا بے شبہ

شجاعت کے میدان میں جولاں ہو گر

تو اُٹھ جائے رستم دلوں سے قرار

امتیاز کے دیوان میں مثنوی کے علاوہ قصیدہ جات، مخمّس، مسدّس، قطعات و رباعیات، مثمن، منقبت، فارسی غزل و قطعہ بھی شامل ہیں۔

اس طرح اب ماہ لقا چندا بائی اور لطف النساء امتیاز دونوں کا شمار اردو ادب کی اوّلین شاعرات میں ہوتا ہے۔ اس کی ایک بڑی وجہ یہ ہے کہ ان کا دور ایک ہی تھا اور اسی لیے ادبی محققین نے اپنے طور پر دست یاب معلومات کی بنیاد پر ان سے متعلق قیاس کر لیا ہے۔

Comments

اہم ترین

ویب ڈیسک
ویب ڈیسک
اے آر وائی نیوز کی ڈیجیٹل ڈیسک کی جانب سے شائع کی گئی خبریں

مزید خبریں