22 ستمبر 1988 کو رئیس امروہوی کسی علم دشمن اور سفاک قاتل کی گولیوں کا نشانہ بنے اور ہمیشہ کے لیے زندگی کا ساتھ چھوڑ دیا۔ آج اردو کے اس نام وَر شاعر، ادیب اور صحافی کی برسی ہے۔
رئیس امروہوی کا اصل نام سید محمد مہدی تھا۔ وہ 12 ستمبر 1914 کو امروہہ کے ایک علمی و ادبی گھرانے میں پیدا ہوئے۔ والد علامہ سید شفیق حسن ایلیا عالم اور شاعر تھے۔ اس کنبے میں رئیس امروہوی کے علاوہ تقی امروہوی اور جون ایلیا جیسی نابغہ روزگار شخصیات نے جنم لیا اور اردو زبان میں علم و ادب کے گلشن میں مزید خوش نما اور رنگ برنگے پھول کھلائے۔ رئیس امروہوی نے فلسفہ و نفسیات کے موضوعات، ادب اور صحافت میں نام و مقام بنایا۔
رئیس امروہوی قیامِ پاکستان سے قبل امروہہ اور مراد آباد سے نکلنے والے کئی رسالوں سے وابستہ رہے۔ ہجرت کے بعد کراچی میں سکونت اختیار کی تو یہاں قطعہ نگاری اور کالم نویسی ان کا حوالہ بنی اور تا دمِ مرگ لکھنے لکھانے کا سلسلہ جاری رہا۔
ان کے کالم، علمی و ادبی مضامین اور شاعری ان کی متعدد کتب میں محفوظ ہے۔ رئیس امروہوی کے شعری مجموعوں میں الف، پسِ غبار، ملبوسِ بہار اور قطعات کے چار مجموعے شامل ہیں۔ نفسیات اور مابعدالطبیعات پر رئیس امروہوی کی ایک درجن سے زیادہ کتب شایع ہوئیں۔ ان کا ایک شعر دیکھیے۔
خاموش زندگی جو بسر کر رہے ہیں ہم
گہرے سمندروں میں سفر کر رہے ہیں ہم