تازہ ترین

علی امین گنڈاپور وفاق سے روابط ختم کر دیں، اسد قیصر

اسلام آباد: رہنما پاکستان تحریک انصاف اسد قیصر نے...

وزیراعظم شہبازشریف کو امریکی صدر جو بائیڈن کا خط، نیک تمناؤں کا اظہار

واشنگٹن: امریکی صدر جو بائیڈن نے وزیر اعظم شہباز...

بابر اعظم کو دوبارہ قومی ٹیم کا کپتان بنانے کا فیصلہ ہو گیا

پاکستان کرکٹ بورڈ نے بابر اعظم کو ایک بار...

چین پاکستان معاہدوں کے حوالے سے آئی ایم ایف کا اہم بیان

عالمی مالیاتی ادارے کا کہنا ہے کہ چین پاکستان...

اور نواب تاباں کا ناریل چٹخ گیا!

نواب تاباں نواب سائل کے بڑے بھائی تھے۔ بالکل انھیں کی طرح میدہ و شباب رنگ، ویسا ہی ڈیل ڈول، ناک نقشہ اور لباس، مگر دونوں بھائیوں کے مزاج میں زمین آسمان کا فرق تھا۔

بڑے بھائی کو چھوٹے بھائی سے نہ جانے کیا کد تھی کہ ہمیشہ برا بھلا ہی کہتے رہتے تھے۔ بلکہ گالیاں دینے سے نہ چوکتے تھے اور گالی بھی ایک سے ایک نئی تراشتے تھے۔ سائل بے چارے سر جھکا کر کہتے ’’بھائی جان آدھی مجھ پر پڑرہی ہیں اور آدھی آپ پر‘‘ اس پر وہ اور بگڑتے اور ایسی سناتے جو دھری جائیں نہ اُٹھائی جائیں۔

نواب تاباں بھی شاعر تھے۔ اردو میں بھی شعر کہتے تھے اور فارسی میں بھی۔ ایک دفعہ شبلی نعمانی دلّی آئے تو حکیم اجمل خان کے ہاں مہمان ہوئے۔ نواب تاباں کی تعریف غائبانہ سن چکے تھے۔ ان سے ملنے کے خواہش مند ہوئے۔ حکیم صاحب نے ایک صاحب کے ساتھ شبلی کو ان کے گھر بھیج دیا۔ نواب صاحب نے بڑے تپاک سے ان کا خیرمقدم کیا۔ عزت سے بٹھایا۔ خاطر تواضع کی۔

شبلی کی فرمائش پر اپنی غزل سنانی شروع کی۔ شبلی بھی ذرا مُدَمّعِْ آدمی تھے، خاموش بیٹھے سنتے رہے۔ تاباں نے دیکھا کہ مولانا ہوں ہاں بھی نہیں کرتے تو چمک کر بولے،

’’ہاں صاحب، یہ شعر غور طلب ہے اور غزل کا اگلا شعر سنایا۔ مولانا نے فرمایا سبحان ﷲ خوب شعر کہا ہے آپ نے۔‘‘

بس پھر تاباں آئیں تو جائیں کہاں؟ بگڑ کر بولے،

’’ابے میں نے تو یہ شعر تین دن میں کہا اور تُو نے اسے ایک منٹ میں سمجھ لیا، بیٹا یہ شعر العجم نباشد۔ اس کے بعد ان کی گالیوں کا پٹارہ کھل گیا اور مولانا شبلی کو اپنا پنڈ چھڑانا مشکل ہوگیا۔

Comments

- Advertisement -