تازہ ترین

صحرا میں‌ اذان دینے والے سلیم احمد

ممتاز شاعر، نقاد اور ڈراما نویس سلیم احمد اپنے بے لاگ اور کھرے انداز میں لکھے گئے تنقیدی مضامین کی وجہ سے دنیائے ادب میں‌ متنازع تو رہے، لیکن‌ اسی تنقید اور کھرے پن نے انھیں‌ اپنے ہم عصروں‌ میں‌ ممتاز بھی کیا۔

سلیم احمد یکم ستمبر 1983 کو کراچی میں‌ وفات پاگئے تھے۔ آج ان کی برسی منائی جارہی ہے۔ وہ ضلع بارہ بنکی کے ایک نواحی علاقے میں‌ 27 نومبر1927 کو پیدا ہوئے۔ قیام پاکستان کے بعد ہجرت کی اور 1950 میں ریڈیو پاکستان سے منسلک ہوگئے۔

انھیں‌ منفرد لب و لہجے اور مضامینِ تازہ کا شاعر تو کہا جاتا ہے، مگر شعروسخن کی دنیا میں‌ وہ ہمیشہ اعتراضات اور تنقید کی زد پر رہے۔

سلیم احمد کو ایک اچھا ڈراما نویس بھی کہا جاتا ہے۔ انھوں نے ریڈیو اور ٹیلی وژن کے لیے متعدد ڈرامے تحریر کیے، جب کہ اخبارات میں ان کے کالم بھی شایع ہوتے رہے جنھیں‌ بہت پسند کیا جاتا تھا۔

ان کے شعری مجموعوں‌ میں‌ بیاض، اکائی، چراغ نیم شب جب کہ تنقیدی مضامین پر مشتمل کتاب میں‌ نئی نظم اور پورا آدمی، غالب کون؟ ادھوری جدیدیت اور اقبال ایک شاعر شامل ہیں۔

ان کی غزل کے دو شعر دیکھیے۔

جانے کس نے کیا کہا تیز ہوا کے شور میں
مجھ سے سنا نہیں گیا تیز ہوا کے شور میں
میں بھی تجھے نہ سن سکا تُو بھی مجھے نہ سن سکا
تجھ سے ہوا مکالمہ تیز ہوا کے شور میں

ان کا یہ شعر تحریر سے تقریر تک خوب برتا گیا

شاید کوئی بندۂ خدا آئے
صحرا میں اذان دے رہا ہوں

Comments

- Advertisement -