میری عمر چودہ برس۔ صوفی صاحب نئے نئے ریٹائر ہو کر اس علاقے میں بسے تھے۔ ہم کرائے کے مکان میں نئے نئے منتقل ہوئے تھے۔ ہمارے گھر کے سامنے والے مکان کی ڈیوڑھی پر پان والا بیٹھتا تھا۔ ہر دو گھنٹے بعد ایک خوش لباس شخص آتا، پان بنواتا، کھاتا، ٹہلتا ٹہلتا چلا جاتا۔ کبھی کُرتا شلوار اور کبھی کرتا اور چوڑی کنی کی خوب صورت دھوتی پہنے۔ کبھی پینٹ بشرٹ اور کبھی قمیص اور پینٹ پہنے۔
ہماری امّاں کہ جن کا پان دان ہمیشہ شاداب رہتا، اس شخص سے بہت نالاں تھیں۔ اگر پان کھانے کا اتنا ہی شوق ہے تو یہ شخص گھر میں پان دان کیوں نہیں رکھتا! امّاں کی بھی ہر دفعہ نظر صوفی صاحب پر ہی پڑتی اور وہ بھی پان وہیں کھڑے ہو کر کھاتے۔
غائبانہ لڑائی کا یہ سلسلہ امّاں کی طرف سے باقاعدہ شروع ہو چکا تھا۔ اس پر سونے پر سہاگا ہو گیا۔
ایک دِن صوفی صاحب سیڑھیاں چڑھ کر اوپر آ گئے۔ ہاتھ میں کٹورا تھا۔ پوچھا کیا کیا پکا ہے؟ امّاں نے کہا، ”ثابت مسور۔“
بولے، ”اس پیالے میں ڈال دو۔“ امّاں نے ڈال دی۔ وہ راستے میں چاٹتے ہوئے کھاتے چلے۔ امّاں کو سڑک پر یُوں چاٹنے والی بات اور بھی بُری لگی۔
مگر صوفی صاحب کو سیڑھیوں تک کون لایا؟ یہ میں تھی…. میری صوفی صاحب سے ملاقات اسلامیہ کالج کے شمعِ تاثیر کے مشاعرے میں ہوئی (یادش بخیر، کہ اب تو اس نام کا مشاعرہ ہوتا ہی نہیں، بلکہ اسلامیہ کالج میں سرے سے کوئی مشاعرہ ہی نہیں ہوتا)۔ میں نے جب ان کے بے تکلّف پان کھانے کی شکایت امّاں کی طرف سے کی تو انہوں نے فوراً کہا کہ تمہارے گھر کھا لیا کروں گا، اور یوں میرے اور اپنے خاندان کے درمیان راہ و رسم کی پہلی سیڑھی خود صوفی صاحب نے چڑھی۔
پہل کرنا صوفی صاحب کی عادت تھی۔ صلح میں، دعوت میں، بے تکلّفی میں، ادا دِکھانے میں، ناراضگی میں، شعر سنانے، سمجھانے اور بتانے میں۔ آپ ہی روٹھ کر آپ ہی مان جانا، ان کی ادا تھی۔
نازک بدنی ان پر ختم تھی۔ صبح کی سیر ان کی جان تھی۔ دہی کھانا ان کی ضرورت تھی۔ صاف دسترخوان ان کی بھوک تھی، مگر جسم و جان کی تازگی صرف اور صرف شعر میں تلاش کرتے تھے۔
حقّے کی گُڑگڑاہٹ، کلچے کی مہک، کشمیری چائے کی چُسکی، ٹوپی اُتار کر سر کھجانا اور پھر قلم پکڑ کر کاغذ پر اتنا خوب صورت لکھنا کہ کتابت کرانے کو جی نہ چاہے۔ سید بابر علی نے ان کی خوش تحریری کو دیکھ کر ان کے ہاتھ کے لکھے ہوئے ایک ہزار ایک اشعار شائع کیے تھے۔
امرتسر ان کے حافظے میں زندہ تھا، ذیلدار روڈ تہذیبی لاہور کا آئینہ۔ گورنمنٹ کالج ان کے فخر کا سرنوشت اور سمن آباد اپنے گھر میں ملنے والے سکون سے لے کر اس بے سکونی کا آئینہ تھا کہ جہاں گھروں کی دیواروں پر یہ لکھنا عام ہو گیا تھا ”فحاشی بند کرو۔“
جب عمل مفقود اور نعرے حاوی ہو جائیں، وہ کھوکھلا پن صوفی صاحب کی زندگی کا حصّہ نہ تھا۔ وہ ایسے ظاہری پن سے نالاں ہو گئے تھے۔ وہ بہت کچھ کرنا چاہتے تھے۔ شعری سفر میں بھی بہت سے پڑاؤ ان کے دھیان میں تھے، مگر جسمانی سفر میں وہ احساس کے دوغلے پن سے نالاں تھے۔
ہم جھوٹے ہیں۔ ہم مسلسل دوغلے پن کے عمل کو مسکراہٹوں کی کریز میں لپٹائے ہوئے رکھتے ہیں۔ وہ سچّے تھے، رہائی پا گئے۔
ایک مجموعہ بعنوان ”انجمن“ اور دوسری وہ انجمن کہ جس کے دھوئیں کی شکل میں ہم لوگ ہیں، چھوڑ کر چلے گئے۔ یہ مجموعہ ”انجمن“ 1954ء ہی سے مرتب کرنا شروع کیا تھا۔ اور میری شادی کے بعد شائع ہوا۔ اس لیے میں 1954ء سے لے کر اب تک صوفی صاحب کی رفاقت کی داستان کے صرف چند لمحوں میں آپ کو شریک بنا سکی ہوں۔
بھلا انسان بارش کے قطروں کو کبھی گِن سکا ہے؟ صوفی صاحب بھی بارش تھے: علم کی، محبّت کی اور شفقت کی بارش۔ میں کیسے حساب دوں اُن لمحوں کا جو مجھ پر ساون کی جھڑی کی طرح مسلسل 25 برس کرم فرما رہے۔
(نام وَر شاعر، مدیر اور مترجم صوفی تبسّم کے بارے میں شاعرہ اور ادیب کشور ناہید کی ایک تحریر)