تازہ ترین

پاک ایران تجارتی معاہدے پر امریکا کا اہم بیان آگیا

واشنگٹن : نائب ترجمان امریکی محکمہ خارجہ کا کہنا...

کے4 منصوبے سے بھی ترستے کراچی کو پانی نہیں مل سکے گا

پانی کو ترستے کراچی کے شہریوں کو کے4 منصوبے...

ایرانی صدر ابراہیم رئیسی کی کراچی آمد، مزار قائد پر حاضری

کراچی: پاکستان کے تین روزہ سرکاری دورے پر موجود...

ایرانی صدر کی مزار اقبال پر حاضری، پھول چڑھائے اور فاتحہ خوانی کی

لاہور: ایران کے صدر ابراہیم رئیسی کی لاہور آمد...

24 سال کی عمر میں‌ وفات پانے والی ز۔ خ۔ ش نے کئی بار نام تبدیل کیا!

ز۔ خ۔ ش (زاہدہ خاتون شیروانی) اردو شاعری کا بہت اہم نام ہیں۔ یہ پہلی شاعرہ ہیں جنہیں ان کی توانا فکر اور طرزِ کلام کی وجہ سے نظر انداز کرنا ممکن نہیں رہا۔

اگرچہ انہوں نے اپنی شناخت کو پوشیدہ رکھنے کی پوری کوشش کی، کئی بار نام تبدیل کیے، کچھ عرصے تک نہ چھپنے کا فیصلہ بھی کیا مگر ان کی نظموں نے قارئین کو متوجہ کیا ان کی ایک نظم جو محمڈن یونیورسٹی کے لیے چندے کی اپیل کے سلسلے میں رسالہ ’’عصمت‘‘ کے اکتوبر 1912ء کے شمارے میں شائع ہوئی تھی بہت مقبول ہوئی۔ اس نظم کا ایک شعر دیکھیے۔

اے فخرِ قوم بہنو، عصمت شعار بہنو
مردوں کی ہو ازل سے تم غم گسار بہنو

1922ء میں ان کی وفات پر علاّمہ راشدالخیری نے لکھا تھا، ’’وہ اس پائے کی عورت تھیں کہ آج مسلمانوں میں اس کی نظیر مشکل سے ملے گی۔ علاوہ ذاتی قابلیت کے جو ان کے مضامینِ نظم و نثر سے ظاہر ہوتی ہے۔ ان کا دل قوم کے درد سے لبریز تھا۔‘‘

ز۔ خ۔ ش۔ نے کم عمر پائی۔ وہ دسمبر 1898ء میں پیدا ہوئیں اور 24 سال کی عمر میں وفات پا گئیں۔ ان کے کلام کے دو مجموعے ’’آئینۂ حرم‘‘ اور ’’فردوسِ تخیل‘‘ منظر عام پر آئے۔ فردوسِ تخیل کو انہوں نے اپنی زندگی میں مرتب کر دیا تھا۔ مگر یہ کتاب ان کی وفات کے بعد شائع ہوئی۔

382 صفحات پر مشتمل اس کتاب میں 121 نظمیں شامل ہیں جو متنوع مضامین اور تخلیقی اظہار کی وجہ سے ان کی شعری ذہانت اور قادرُ الکلامی کی آئینہ دار ہیں۔ ان کی غزلیں اس مجموعہ میں شامل نہیں۔ کہا جاتا ہے کہ ان کے والد کے ایماء پر غزلوں کو جلا دیا گیا تھا۔

ز۔ خ۔ ش۔ ایک باشعور اور تعلیم یافتہ شاعرہ تھیں۔ وہ تمام عمر اس بات پر نالاں رہیں اور اس کا اظہار کرتی رہیں کہ عورت کی راہیں بند کر دی گئی ہیں۔ خود انہیں اپنی سیاسی او ر سماجی نظریات کی مکمل آزادی نہیں تھی۔ سیاسی نظریات کے اظہار میں والد کی انگریز پرستی اور داخلی کیفیات کے بیان میں خاندانی روایات حائل رہیں۔ وہ لکھتی ہیں۔

عورتوں کے حق میں ہر مذہب کا ہر ملّت کا فرد
جانور تھا، دیوتا، عفریت تھا، شیطان تھا
باپ ہو، بھائی ہو، شوہر ہو کہ ہو فرزند وہ
مرد کُل اشکال میں فرعونِ بے سامان تھا
مرد کی نا آشنا نظروں میں عورت کا وجود
اک مورت، ایک کھلونا، ایک تنِ بے جان تھا

(ممتاز شاعرہ فاطمہ حسن کے مضمون اردو شاعری میں‌ عورت کا شعور سے اقتباس)

Comments

- Advertisement -