حقیقت تو یہ ہے کہ داغ فطرتاً حسن پرست اور عاشق مزاج تھے۔
طبیعت میں بلا کی شوخی تھی۔ تادم مَرگ یہ ان کے ساتھ رہی اور یہی ان کی شاعری کی کام یابی کا راز تھا۔
داغ نے آخر وقت تک مہ و شو سے سابقہ رکھا اور ہمیشہ شگفتہ اور جان دار شعر کہتے رہے۔ چناں چہ دکن میں جو اچھی غزلیں داغ نے کہی ہیں، ان کے اکثر شعر ایسی ہی محفلوں میں لکھے گئے تھے۔
بعض دفعہ تو یہ ہوتا کہ گانا ہورہا ہے، داغ شعر لکھوا رہے ہیں۔ آمد کا وہ عالم ہے کہ دو شاگرد علیحدہ علیحدہ لکھتے جاتے ہیں پھر بھی جس تیزی سے داغ شعر کہتے، اس رفتار سے لکھنا مشکل ہوجاتا اور نتیجتاً ایک آدھ شعر یا دو چار مصرعے چھوٹ جاتے۔
مثنوی ”فریاد داغ“ میں داغ نے اپنی منظورِ نظر منی جان حجاب کی جوانی کی تصویر یوں کھینچی ہے۔
سج دھج آفت غضب تراش خراش
کسی اچھے کی دل ہی دل میں تلاش
حجاب کے ہونٹ پر تِل تھا، داغ نے اس پر ایک رُباعی لکھی۔
تم تو فلک حُسن پہ ہو ماہِ منیر
سائے کی طرح ساتھ داغ دل گیر
خالِ لب گل فام ہے شاہد اس کا
بے داغ نہ کھنچ سکی تمہاری تصویر
استاد شاعر داغ دہلوی کا تذکرہ، یاسین خاں علی خان کے قلم سے