پیر, نومبر 17, 2025
اشتہار

تاج محل اردو شعراء کی نظر میں

اشتہار

حیرت انگیز

تاج محل مغلیہ دور کا وہ حسین شاہکار ہے جسے دنیا کے عجائبات میں بہت ہی اہم مقام حاصل ہے۔ یہ ایک طرف جہاں اسلامی، فارسی، ترکی اور ہندوستانی فنِ تعمیر کا حسین امتزاج ہے وہیں ایک شہنشاہ کی اپنی شریکِ حیات سے بے پناہ محبت اور اسے اس کئے گئے وعدے کو وفا کرنے کی عمدہ مثال بھی ہے۔

مغل بادشاہ شاہجہاں کے اپنی بیگم ممتاز محل کی یاد میں بنائے گئے تاج محل نے اردو شاعری پر بھی اپنے گہرے اثرات مرتب کئے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ مختلف ادوار میں شعرا نے اسے اپنی توجہ کا مرکز بنایا ہے اور مثبت اور منفی انداز میں اپنے خیالات کا منظوم اظہار کیا ہے۔

چونکہ تاج محل حسن اور عشق دونوں کی علامت (Symbol) مانا جاتا ہے نیز اس کی تاریخی اور تعمیری حیثیت بھی بہت اہمیت رکھتی ہے اس لئے دیگر زبان کی طرح اردو شعراء نے بھی اپنے کلام کے ذریعے اس کی آفاقیت کی نشاندہی کی۔

اردو شاعری میں تاج محل کو جتنی اہمیت حاصل ہے شاید کسی تاریخی عمارت کو نہیں ہے ۔مختلف ادوار میں اردو شعراء نے الگ الگ پیرائے میں اس کی تعریف کی ہے۔ یہاں ان شعراء میں سے چند کا ذکر کرنے کی کوشش کی گئی ہے جنہوں نے تاج محل کے بارے میں اپنے نظمیہ تاثرات بیان کئے ہیں۔

ویسے تو نظیرؔ اکبر آبادی کو عوامی شاعر کی حیثیت سے جانا جاتا ہے لیکن انہوں نے ’’تاج گنج کا روضہ‘‘ کے عنوان سے ایک نظم لکھی۔ اس نظم میں شہر آشوب اور مسدس کی جھلک کے ساتھ ساتھ بنیادی طور پر تاج محل کی دلکشی کو بیا ن کیا گیا ہے۔ اس کے دو بند درج ذیل ہیں ؎

روئے زمیں پہ یوں تو مکاں خوب ہے یہاں
پر اس مکاں کی خوبیاں کیا کیا کروں بیاں
سنگ سفید سے جو بنا ہے قمر نشاں
ایسا چمک رہا ہے تجلّی سے یہ مکاں
جن سے بلور کی بھی چمک شرمسار ہے
وہ تاجدار شاہ جہاں صاحب سریر
بنوایا انہوں نے لگا سیم و زر کثیر
جو دیکھا ہے اس کے یہ ہوتا ہے دل پذیر
تعریف اس مکاں کی میں کیا کیا کروں نظیرؔ
اس کی صفت تو مشتہرِ روزگار ہے

اس نظم کا حسن بیان نظیرؔ اکبر آبادی دیگر نظموں کی یاد دلاتا ہے۔ اس کے علاوہ تاج محل کی خوبصورتی کو بیان کرنے کا اس سے اچھا انداز شاید ہی کسی شاعر نے اپنایا ہو۔

سیمابؔ اکبر آبادی نے اپنی نظم ’’تاج محل‘‘ میں تاج کو حسن و رومان کے زاویۂ نگاہ سے دیکھا ہے۔ ان کے قدرتِ بیان اور استادانہ مشّاقی نے ایک وقار و آہنگ بخشا ہے۔ اس نظم سے ان کے دور میں نظم کہنے کے انداز کا بھی پتہ چلتا ہے۔ یہ ان کی دیدہ وری ہے کہ انہیں تاج محل میں پورا ہندوستان دیکھائی دیتا ہے ؎

تکملہ صنعت کا ہے اس کا ہر اک نقش و نگار
آگیا ہے کھینچ کر اک نقطے میں ہندوستان دیکھ

پوری نظم مندرجہ بالا شعر کے ارد گرد گھومتی ہوئی دیکھائی دیتی ہے اور اسی نقطۂ نظر سے شاعر نے اس شاہکار کو دیکھا ہے ؎

فی الحقیقت تاج ہے آرام گاہ حسن و عشق
مشرق شوق و نیاز و جلوہ گاہِ ناز ہے

ساحر ؔ لدھیانوی نے بھی تاج پر بڑی خوبصورت نظم کہی ہے۔ یہ نظم اتنی پرکشش ہے کہ قاری پر اپنا ایک تاثر چھوڑ جاتی ہے۔ لیکن ساحرؔ نے تاج محل کو ایک الگ زاویۂ نظر سے دیکھا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ یہ نظم آخر میں گہری کاری طنز کی شکل اختیار کر لیتا ہے۔ اس کے چند اشعار ملاحظہ ہوں ؎

تاج تیرے لئے اک مظہر الفت ہی سہی
تجھکو اس وادیِ رنگیں سے عقیدت ہی سہی
میری محبوب کہیں اور ملا کر مجھکو
بزمِ شاہی میں غریبوں کا گزر کیا معنی؟
ثبت جس راہ پہ ہوں سطوت شاہی کے نشاں
اس پہ الفت بھری روحوں کا سفر کیا معنی
یہ چمن زار یہ جمنا کا کنارہ یہ محل
یہ منقش درو دیوار یہ محراب یہ طاق
اک شہنشاہ نے دول کا سہارا لے کر
ہم غریبوں کی محبت کا اڑایا ہے مذاق
میری محبوب کہیں اور ملا کر مجھ سے

صاحبزادہ میکش ؔ نے اپنی نظم ’’تاج محل‘‘ میں ساحرؔ کی طرح تاج محل کو نئے انداز میں دیکھا ہے۔ انہوں نے تاج کو سماجی اور عوامی اندازمیں دیکھنے کی کوشش کی ہے۔ اس میں ان کے تیکھے تیور کی جھلک دکھائی دیتی ہے۔ میکش اسے ایک بے حس مقبرے سے زیادہ اہمیت نہیں دیتے ہیں۔ پھر ان کا دائرہ احساس ذات سے عوام اور سماج تک پھیل جاتا ہے۔ چند اشعار درج ذیل ہیں ؎

ایک ملکہ وہ کہ جس کی آخری خواہش کا نام
جنبش ابرو کا یہ فرمان یعنی تاج ہے
لیکن اپنی پہلی خواہش بھی جو کہہ سکتیں نہیں
ایسی کتنی رانیوں کا جھونپڑوں میں راج ہے
اک محبت وہ کہ جس کو نوجوانی بخش کر
ایک نے پایا سکوں اور سیکڑوں نے اضطراب
اک محبت وہ کہ جس میں عشرتِ غم بھی نہیں
آہ مفلس کی محبت، آہ مفلس کا شباب

عرشؔ ملسیانی کی نظم ’’شاہ جہاں کے آخری جذبات، روضۂ تاج محل کو دیکھ ‘‘ کا رنگ و آہنگ دوسرے شعراء کی تاج پر لکھی گئی نظموں سے با لکل جدا ہے۔ اس نظم میں شاہ جہاں کے ان جذبات کی ترجمانی ہے جو ’تاج ‘ کو دیکھ کر اس کے دل میں اس وقت پیدا ہوئے تھے جب وہ مطلق العنان شاہ جہاں کا کھنڈر رہ گیا تھا۔ عرشؔ صاحب نے تاج سے متعلق اظہارِ خیال کو ایک الگ پہلو سے پیش کیا ہے؎

تاج اے میری شہنشاہی کے رنگیں شاہکار
اے میری ممتاز کے آرام گاہِ پُر وقار
اے میرے گزرے ہوئے اقبال و دولت کے نشان
اے مرے دور جہاں بانی کی ذرّیں یادگار
اے مری عظمت کے ضامن اے مری آنکھوں کے نور
اے مرے اجڑے ہوئے دل کے گلستاں کی بہار
پہلوئے محبوب میں للہ بلا لے اب مجھے
کچھ بھی ہو آغوش میں اپنی سلا لے اب مجھے

ظفرؔ ادیب نے اپنی نظم’’ نئی منزل نیا شہکار‘‘ میں تاج محل کے بہانے انسان کے مسلسل اور ازلی سفر کی نشاندہی فن کارانہ انداز میں کی ہے۔ اس میں انہوں نے تاج کو انسان کے مختلف ادوار میں ابھارے گئے اپنی عظمت کے نقوش میں سب سے عظیم بتایا ہے ؎

آج تک میں نے ابھارے ہیں جو عظمت کے نقوش
ان میں ہر اک سے ہے، تاج عظیم اور جواں
میں ازل ہی سے ہوں منزل کے لئے گرم سفر
چھوڑتا آیا ہوں ہر ایک جگہ کاہکشاں

اس کے علاوہ شاعر کو تاج جیسے شہکار کی تعمیر کا فخر بھی دامن گیر ہے جو نظم کے آخری بند تک دکھائی دیتا ہے ؎

آج تک تو یہی ہے میرے جنوں کا شہکار
میری قامت کی بلندی میری عظمت کا نشان

ساحلؔ سلطان پوری نے اپنی نظم ’’تاج محل (ممتاز سے)‘‘ میں تاج کی حسن آرائیوں کو ممتاز کے حسن سے مماثل اور مشابہ بتایا ہے۔ ان کے مطابق ممتاز کے حسن کی وسعت اور اثر ہی تاج محل کے تعمیر کی وجہ بنا ؎

یہ تیرے حسن جہاں سوز کا کرشمہ تھا
کہ بادشاہ کو فن کار کی نظر بخشی
وہ جس کے نور سے روشن ہیں دل کے ویرانے
تری وفا نے زمانے کو وہ سحر بخشی

متذکرہ بالا شعراء کے علاوہ بھی متعدد شعراء حضرات ہیں جنہوں نے تاج محل کو موضوع سخن بنایا ہے ان شعراء میں چند کے نام جگن ناتھ آزادؔ ‘ احسانؔ دانش‘ سلامؔ مچھلی شہری‘ اخترؔ اورینوی‘ وارث کرمانی‘ مخمور سعیدی‘ کلیم بدایونی وغیرہ ہیں۔ ان سبھوں کے علاوہ بھی دیگر شعراء نے اپنے اپنے انداز سے تاج محل کی خوبصورتی اور اس کی تاریخی حیثیت کو اپنے کلام میں پیش کیا ہے جو قابل مطالعہ ہے۔

(از قلم ڈاکٹر صبیحہ ناہید)

+ posts

اے آر وائی نیوز کی ڈیجیٹل ڈیسک کی جانب سے شائع کی گئی خبریں

اہم ترین

ویب ڈیسک
ویب ڈیسک
اے آر وائی نیوز کی ڈیجیٹل ڈیسک کی جانب سے شائع کی گئی خبریں

مزید خبریں