تازہ ترین

کچے کے ڈاکوؤں کو اسلحہ فراہم کرنیوالے 3 پولیس افسران سمیت 7 گرفتار

کراچی : پولیس موبائل میں جدید اسلحہ سندھ اسمگل...

پاکستان کو آئی ایم ایف سے 6 ارب ڈالر قرض پروگرام کی توقع

وفاقی وزیر خزانہ محمد اورنگزیب نے کہا ہے کہ...

اسرائیل کا ایران پر فضائی حملہ

امریکی میڈیا کی جانب سے یہ دعویٰ سامنے آرہا...

بادل، بجلی اور انصاف کی کہانی

بھورے بادل کی گود میں بجلی مچلی۔ آگے بڑھی، زمین کی طرف۔ بادل نے ٹوکا’’ کہاں چلیں؟‘‘

ایک ننّھی سی تتلی پھولوں پر منڈلا رہی تھی کہ تبھی ایک گَوریّا اس پر جھپٹ پڑی اور نہایت بے رحمی کے ساتھ اسے نگلنے کی کوشش کرنے لگی۔

’’اس بے رحم گَوریّا کو سبق سکھانے۔‘‘ بجلی نے اشاروں سے بتایا اور بادل کا ردِّ عمل جانے بغیر، زمین کی طرف بڑھنا چاہتی تھی کہ اس کی چیخ نکل گئی۔

’’بادل دادا!غضب ہو گیا۔‘‘ گَوریّا ابھی ٹھیک سے تتلی کو نگل بھی نہیں پائی تھی کہ اس پر ایک باز نے جھپٹّا مارا اور گَوریّا اپنی جان گنوا بیٹھی۔

بادل خاموش رہا۔ ایک پُر اسرار مسکراہٹ اس کے ہونٹوں پر کھیلتی رہی۔ادھر بجلی کا غصہ مسلسل بڑھتا جا رہا تھا۔

’’میں اس ظالم باز کو ہر گز نہیں چھوڑوں گی۔‘‘ وہ غصے میں بڑبڑائی۔اچانک ایک احساس ندامت اس کی آواز میں اتر آیا۔

’’ہائے ابھی تک کتنی غلط تھی میں کہ گَوریّا کو ظالم سمجھ رہی تھی، گَوریّا سے بڑا ظالم تو وہ باز ہے۔ اچھا ہُوا کہ وقت سے پہلے حقیقت آشکار ہو گئی، ورنہ معصوم گَوریّا ہی میرے غضب کا شکار ہوتی۔‘‘

بادل اب بھی مسکرا رہا تھا۔ بجلی کچھ اور آگے بڑھی۔ تب ہی اس کے کانوں میں ہلکی سی ایک آواز آئی۔ اس نے نیچے دیکھا۔ باز زمین پر پڑا تڑپ رہا تھا۔ اس کے قریب ہی بندوق لیے ایک شکاری کھڑا تھا۔

’’اُف۔۔۔ یہ شکاری تو سب سے بڑا ظالم و جابر ہے۔ گَوریّا نے تتلی کو مارا، اس لیے کہ وہ بھوکی تھی۔ باز نے گَوریّا کو مارا، اس لیے کہ اسے بھی بھوک نے مجبور کیا تھا۔

اگر یہ دونوں اپنی اپنی بھوک کا کہا نہ مانتے تو ممکن تھا کہ وہ اپنی ہی بھوک کا لقمہ بن جاتے، لیکن یہ شکاری۔۔۔!!

اس نے تو محض اپنے شوق کی تسکین کے لیے باز کو نشانہ بنایا۔ میں اسے چھوڑوں گی نہیں۔ کچھ تو زمین کا بوجھ کم ہو گا۔‘‘ سوچتے ہوئے بجلی کا چہرا تمتمانے لگا۔

وہ تیزی سے آگے بڑھی۔ بجلی کی کڑک اور بادل کی گڑگڑاہٹ نے تیز بارش کی شکل اختیار کر لی۔ بارش سے بچنے کے لیے شکاری نے ایک غریب کسان کے جھونپڑے میں پناہ لی۔

دانش وَروں کی طرح بجلی بھی اپنی بے جا ضد پر اَڑی رہنے والی تھی۔اپنے فیصلے پر وہ بھی نظرِثانی نہیں کر سکتی تھی۔ وہ جھونپڑی پر گری۔پَل بھر میں شکاری کے ساتھ غریب کسان اور اس کا خاندان بھی خاک ہو گیا۔

عدلیہ کی طرح بجلی بھی مطمئن تھی کہ اس نے انصاف کر دیا ہے۔

(اوم پرکاش کشیپ کی اس مختصر کہانی کا عنوان "مشیّت” ہے جو کسی بھی ریاست میں ظلم و جبر اور اشرافیہ کی من مانی اور مفاد پرستی کو بے نقاب کرتی ہے)

Comments

- Advertisement -