تازہ ترین

حکومت کا ججز کے خط پر انکوائری کمیشن بنانے کا اعلان

اسلام آباد: وفاقی حکومت نے اسلام آباد ہائی کورٹ...

فوجی عدالتوں سے 15 سے 20 ملزمان کے رہا ہونے کا امکان

اسلام آباد : اٹارنی جنرل نے فوجی عدالتوں سے...

سڑک کا بنانا ایک غلطی تھی!

غفور علی مول تلا میں گوہر علی کے نام سے مشہور تھا۔ ایک دن نہ جانے اسے کیا ہوا کہ کُدال لے کر سڑک کو دیوانہ وار توڑنے پھوڑنے لگا۔

دیکھنے میں تو اس کا یہ فعل بڑا ہی مجنونانہ تھا، لیکن درحقیقت یہ کوئی اضطراری فعل نہ تھا۔ اس کے پیچھے حالات کا ایک لمبا چوڑا سلسلہ تھا۔ ورنہ یہ بات کچھ سمجھ میں نہیں آتی کہ جو سڑک گاؤں کے سب سے لوگوں نے مل جل کر بنائی تھی اور جس کے لیے خود گوہر علی نے اپنی زمین کا بہت سا حصہ دیا تھا، وہ اسی کو دیوانہ وار تباہ کرنے کی کوشش کرے۔

مول تلا ان چھوٹے چھوٹے دیہات میں سے تھا جن کا جنگ سے پہلے باہر کی دنیا سے بہت کم میل جول تھا۔ اور لوگ وہی پرانے زمانے کی زندگی بسر کر رہے تھے۔ کم ازکم سڑک بننے سے پہلے اس کی وضع اور ماحول میں کوئی تبدیلی رونما نہیں ہوئی تھی۔ ان کا بیرونی دنیا سے کوئی تعلق نہ تھا۔ اور تھا تو بالکل برائے نام۔

وہ ایک خاص وضع کی زندگی بسر کرتے تھے جس میں ان کی اپنی ہی رسموں اور ریتوں کو دخل ہوتا تھا۔

ایک مرتبہ اس گاؤں کا نوجوان اس زندگی سے دامن چھڑا کر باہر نکل گیا۔ جب وہ واپس آیا تو وہ اپنے ساتھ روپیہ پیسہ ہی نہیں بلکہ ایک نیا تصور اور بلند تر معیار زندگی بھی لے کر آیا۔ اس نے گاؤں والوں کو بتایا کہ مول تلا کی ندیوں اور نہروں سے پرے، ایک جگہ ہے جسے ”شہر“ کہتے ہیں۔ زندگی کے بہتر پہلو سے روشناس ہونے کے لیے یہ ضروری ہے کہ شہروں اور بندرگاہوں کے ساتھ تعلق پیدا کیا جائے۔ یہ مسئلہ فی الفور ایک سڑک تعمیر کرنے سے حل ہوسکتا ہے۔

اسی دن سے جناب علی حوالدار نے عہد کیا کہ اپنی ساری قوت اور ذرائع گاؤں کی ترقی پر صرف کرے گا۔ اس نے ڈسٹرکٹ بورڈ کو بھی سڑک بنانے پر آمادہ کرلیا ۔ گاؤں کے دوسرے مرفہ الحال لوگوں نے بھی بڑی سرگرمی سے سدھار کا بیڑا اُٹھایا جو ان کے خیال میں ضرور سماجی ترقی کا باعث ہوگا۔

اس سلسلے میں زیادہ مشکل گوہر علی جیسے غریب کسانوں کے سبب پیدا ہوئی۔ جن کی زرعی زمینوں کا حصہ سڑک کی بھینٹ چڑھتا تھا۔ لیکن سڑک کے بارے میں دل میں عجیب و غریب تصورات کا ایک طلسم پیدا ہو گیا۔ اس نے سوچا وہ کب تک اس زمین کی معمولی سی پیداوار کو دانہ دانہ کرکے چُنتا رہے گا۔ اس سے کہیں بہتر یہ ہوگا کہ وہ نئی زندگی کا خیر مقدم کرے۔ گھر واپس جاکر اس نے اپنی بیوی کو بھی اس زندگی کے خلاف بغاوت پر آمادہ کر لیا۔

آخر کار سڑک تعمیر ہوگئی۔ لوگوں نے شہر آنا جانا شروع کردیا۔ جب سڑک کا پہلا پہلا طلسمی اثر دور ہوگیا تو لوگ سڑک کے کنارے اپنے ڈھور ڈنگر باندھنے لگے۔ اس کے کنارے بیٹھ کر حقہ پیتے اور گپیں ہانکتے۔ ادھر بعض نوجوان گاؤں کو چھوڑ کر دھن دولت کی تلاش میں شہر کو روانہ ہوجاتے۔

ایک دن گوہر علی نے سج دھج کر تین دن کے لیے شہر میں رہنے کو چل پڑا۔ واقعی شہر کے بارے میں جو کہانیاں بیان کی گئی تھیں۔ وہ بالکل صحیح تھیں۔ اس میں ایسے لوگ بستے تھے جن کی زندگیاں خوشی اور خوش نصیبی سے بھرپور تھیں، لیکن اس کے باوجود دال میں کچھ کالا ضرور تھا۔

ان لوگوں کو سمجھنا، ان کے دل کی تہ تک پہنچنا دشوار تھا۔ انھیں اس جیسے غریبوں سے کوئی ہمدردی نہ تھی۔ اور کوئی اس سے ایک دو منٹ بھی بات کرنے کو تیار نہ تھا۔

گوہر علی نے پوری شدت سے یہ محسوس کیا کہ شہروں میں ہر بات پیسے کی کسوٹی پر پرکھی جاتی ہے۔ تیسرے دن وہ شہر کے خلاف بڑی نفرت اور غصے سے بھرا ہوا دل لے کر گاؤں واپس چلا آیا۔

وہ خیالات میں کھویا رہا۔ آخر فیصلہ کیا کہ وہ بھی اپنے مستقبل کی بنیاد دولت ہی پر رکھے۔ چنانچہ اس نے ایک کام شروع کردیا۔ ایک دن ہاجرہ کو کہنا ہی پڑا، ”اے میاں! جس طرح تم نے بے تحاشا چیزیں بیچنی شروع کردی ہیں کچھ عجب نہیں کہ ایک دن میں بھی بکاؤ مال میں شامل ہو جاؤں۔“

گوہر علی اب دونوں ہاتھوں سے دھن کما رہا تھا۔ تین سال میں اس کی کٹیا پر ٹین کی چھت پڑ چکی تھی۔ اس کے ساتھ ہی سڑک پر دیوانی اور فوجداری عدالتوں کی طرف آمد و رفت بھی شروع ہوگئی۔ دیہاتیوں کی سیدھی سادی زندگی میں سازش اور مکاری بھی شامل ہوگئی۔

سڑک کے دونوں طرف کتنے ہی گلی کوچے بن گئے جن میں خدا جانے کتنے ہیر پھیر تھے۔ رفتہ رفتہ نوبت یہاں تک پہنچی کہ ایک دن کسی شخص کی چند گائیں چرتی چرتی کسی اور کے کھیت میں جا نکلیں۔ جس پر جھگڑا ہوگیا اور ایک آدمی مارا گیا۔

جب تک جناب علی کو اس کی خبر ہو اور وہ موقع واردات پر پہنچے۔ سڑک کا کافی حصہ بھی نابود ہوچکا تھا کیوں کہ لڑنے والوں نے اس کے اکھڑے اکھڑے پتھر اٹھا اٹھا کر ایک دوسرے پر خوب گولہ باری کی۔

جناب علی نے سب کو بلایا اور کہا ”کیا ہم نے سڑک اسی لیے بنائی تھی؟ ارے گنوار وحشیو!“ لیکن اس کے الفاظ کا لوگوں پر کوئی اثر نہ ہوا ۔ وہ سب تو تھانے، عدالت اور مقدمے کی فکر میں تھے۔

اسی اثنا میں جنگ چھڑ گئی۔ گاؤں کی تاریخ میں یہ ایک نادر واقعہ تھا۔ جو کچھ گزشتہ کئی صدیاں نہیں کرسکی تھیں، وہ انگریزوں کی دو سو سال کی حکومت نے کر دکھایا۔

اناج کا بھاؤ تیزی سے چڑھنے لگا۔ زندگی کے سوا ہر چیز کی قیمت بڑھ گئی۔ دھیرے دھیرے سڑک کے راستے قحط بھی آن پہنچا اور چور بازاری اور اس قسم کے اور وتیرے بھی ریلے مار مار کر آنے لگے۔ ان کی امڈتی ہوئی موجیں اپنے ساتھ امن کو بہا لے گئیں۔

ساتھ ہی سرکاری حکام سڑک کے راستے گاؤں میں آنے لگے۔ یہ لوگ اپنی جیبیں رشوتوں سے بھر بھر کر واپس جاتے۔ شہر کے ایک بڑے رئیس کا باورچی لطفو ایک شخص اصغر اللہ کی جوان بیٹی کلثوم کو لے بھاگا۔

فوجیوں کی رسد کے لیے ٹھیکیدار اور دوسرے لوگ سبزیاں، ترکاریاں، لکڑی، کاٹھ اور مرغیاں وغیرہ لینے آتے۔ گوہر علی کی ان میں سے ایک کے ساتھ دوستی ہوگئی۔ قحط کا زمانہ تھا۔ گوہر علی بڑی مشکل میں تھا۔ اس نے سوچا کہ اپنے نئے دوست کے اثر و رسوخ سے آمدنی بڑھانے کی کوئی صورت پیدا کرے۔ لیکن اس کی کوششوں کے باوجود کچھ بھی بن نہ پڑا۔ صرف ایک صبح ہاجرہ گھر سے کہیں غائب ہوگئی۔ وہ دوست اس کے بعد کبھی دکھائی نہ دیا۔

پوچھ گچھ کرنے پر سات میل دور ایک کسان سے پتا چلا کہ اس نے ایک دن صبح سویرے ایک عورت کو کسی مرد کے ساتھ جاتے دیکھا تھا۔

قحط نے گوہر علی کو ظاہری حیثیت سے پہلے ہی قلاش کردیا تھا۔ اب وہ روحانی طور پر بھی قلاش ہوگیا۔ ایک دن گاؤں میں خبر مشہور ہوگئی کہ گوہر علی اپنی بیوی کے چلے جانے پر دیوانہ ہوگیا۔ سب لوگ اسے دیکھنے کے لیے دوڑ دوڑ کر آنے لگے۔

گوہر علی سڑک پر اندھا دھند کدال پر کدال برسا رہا تھا۔ سب پوچھنے لگے یہ کیا کر رہا ہے؟“ اس نے کدال روکے اور آنکھیں اٹھائے بغیر جواب دیا۔

”اس سڑک کا صفایا کر رہا ہوں۔“

”وہ کیوں؟“

اس لیے کہ اس سڑک کا بنانا ایک غلطی تھی۔ اسے ہرگز نہیں بننا چاہیے تھا۔“

گوہر علی نے کدال سے تابڑ توڑ چوٹیں برساتے ہوئے یہ الفاظ کچھ اس طرح کہے گویا وہ اپنے دل سے کوئی بات کررہا ہو۔

(ابوالکلام شمس الدین کے بنگالی زبان کے افسانے کا ترجمہ)

Comments

- Advertisement -