تازہ ترین

ایران کے صدر ڈاکٹر ابراہیم رئیسی دورہ پاکستان مکمل کرکے واپس روانہ

کراچی: ایران کے صدر ڈاکٹر ابراہیم رئیسی دورہ پاکستان...

پاک ایران تجارتی معاہدے پر امریکا کا اہم بیان آگیا

واشنگٹن : نائب ترجمان امریکی محکمہ خارجہ کا کہنا...

کے4 منصوبے سے بھی ترستے کراچی کو پانی نہیں مل سکے گا

پانی کو ترستے کراچی کے شہریوں کو کے4 منصوبے...

ایرانی صدر ابراہیم رئیسی کی کراچی آمد، مزار قائد پر حاضری

کراچی: پاکستان کے تین روزہ سرکاری دورے پر موجود...

ایرانی صدر کی مزار اقبال پر حاضری، پھول چڑھائے اور فاتحہ خوانی کی

لاہور: ایران کے صدر ابراہیم رئیسی کی لاہور آمد...

لاٹری ٹکٹ

ملک کمال صاحب ایک مڈل کلاس طبقہ کے آدمی تھے جو اپنے بیوی بچوں کے ساتھ ایک پوش علاقے میں رہتے تھے۔

اچھی آمدنی تھی، جس پر وہ صابر و شاکر تھے۔ شام کا ہلکا پھلکا کھانا کھانے کے بعد صوفے پر اخبار پڑھنے بیٹھ گئے۔

‘‘میں تو آج صبح اخبار پڑھنا بھول ہی گئی۔ ’’ ان کی بیگم نے میز صاف کرتے ہوئے مخاطب کیا۔

‘‘دیکھو کیا قرعہ اندازی کی لسٹ آئی ہے؟’’

‘‘او، ہاں، لیکن کیا تمہارے ٹکٹ کا وقت ختم نہیں ہو گیا؟’’

‘‘نہیں، میں نے منگل ہی کو نئی لاٹری لی ہے۔’’

‘‘نمبر کیا ہے؟’’

‘‘لاٹری سیریز 9499 نمبر 26’’

‘‘ٹھیک ہے، دیکھتے ہیں۔ ’’

کمال صاحب لاٹری پر یقین نہیں رکھتے تھے۔ اصولاً وہ لاٹری لسٹ دیکھنے پر راضی بھی نہ ہوتے لیکن اس وقت وہ بالکل فارغ تھے، اور اخبار اُن کی آنکھوں کے سامنے۔ انہوں نے نمبروں کے کالم پر اوپر سے نیچے انگلی پھیری۔ فوراً ہی جیسے ان کے شکوک وشبہات کا تمسخر اڑانے کے لئے اوپر سے دوسری لائین پر ان کی نگاہیں 9499 پر رک گئیں۔ انہیں اپنی آنکھوں پر یقین نہیں آرہا تھا۔

اخبار ان کے گھٹنوں پر سے پھسل گیا۔ ٹکٹ کا نمبر دیکھے بغیر، جیسے انہیں کسی نے ٹھنڈے پانی کی پھوار سے نہلا دیا ہو، انہوں نے معدے میں خوشگوار سی ٹھنڈک محسوس کی، انہوں نے اپنی بیگم کو آواز دی۔
‘‘کلثوم!9499 تو یہا ں ہے۔’’

یہ کہتے ہوئے ان کی آواز بالکل خالی خالی تھی۔ ان کی بیگم نے ان کے حیرت زدہ اور گھبرائے ہوئے چہرے کو دیکھا اور سمجھ گئی کہ وہ مذاق نہیں کررہے۔ زرد پڑتے ہوئے تہ کیا ہوا میز پوش واپس میز پر گراتے ہوئے انہوں نے پوچھا،‘‘9499۔’’

‘‘ہاں….ہاں….واقعی….’’

‘‘اور ٹکٹ نمبر؟’’

‘‘او….ہاں….ٹکٹ کا نمبر بھی لکھا ہے۔ لیکن رکو۔ ذرا انتظار کرو۔ سیریز نمبر تو ہمارا ہی ہے۔ بہرحال….’’

بیگم کو دیکھتے ہوئے کمال صاحب مسکرائے، اس بچے کی طرح جسے کوئی روشن چمکدار چیز مل گئی ہو۔ ان کی بیگم بھی مسکرا دیں، دونوں ٹکٹ نمبر دیکھے بغیر خوش تھے۔ مستقبل کی خوش بختی کی امید تھی ہی اتنی مزے دار اور سنسنی خیز۔

کافی دیر خاموش رہنے کے بعد کمال صاحب نے پھر کہا ‘‘سیریز تو ہماری ہی ہے۔ اس لئے امید ہے ہم جیتے ہیں۔ یہ محض امید ہی ہے، پر ہے تو سہی۔ ’’

‘‘اچھا دیکھو! ’’

‘‘ذرا صبر کرو ۔ ناامید ہونے کے لئے کافی وقت پڑا ہے، اوپر سے دوسری لائن ہے۔ انعام پانچ کروڑ روپے ہے۔ یہ رقم نہیں، طاقت اور سرمایہ ہے۔ ایک منٹ میں لسٹ دیکھوں گا۔ پھر ….26….آہا’’

‘‘میں کہتا ہوں اگر ہم واقعی جیت گئے تو….’’

دونوں میاں بیوی ہنسنے لگے اور ایک دوسرے کو خاموشی سے گھورنے لگے۔ جیتنے کی امید نے انہیں حیران و پریشان کر دیا تھا۔

وہ نہ کہہ سکتے تھے نہ خواب دیکھ سکتے تھے کہ انہیں یہ روپے کس لئے چاہییں؟ وہ کیا خریدیں گے، وہ کہاں جائیں گے۔ وہ صرف 9499 اور پانچ کروڑ روپے کے بارے میں ہی سوچ رہے تھے۔

چشمِ تصوّر سے دیکھ رہے تھے، لیکن اس خوشی کے بارے میں نہیں سوچ رہے تھے جو ممکن ہو سکتی تھی۔

کمال صاحب اخبار ہاتھ میں پکڑے ایک سرے سے دوسرے تک ٹہل رہے تھے۔ اور جب وہ پہلے جھٹکے سے نکلے تو انہوں نے خواب دیکھنے شروع کئے۔

‘‘اگر ہم جیت گئے۔ ’’ انہوں نے کہا،‘‘یہ ایک نئی زندگی ہو گی، مکمل کایا پلٹ۔ ٹکٹ تمہارا ہے، اگر یہ میرا ہوتا تو میں سب سے پہلے تین کروڑ کی جائیداد خریدتا۔ ایک کروڑ فوری اخراجات کے لئے، جیسے گھر کی نئی سجاوٹ، سیروتفریح، قرض کی ادائیگی وغیرہ وغیرہ۔ باقی ایک کروڑ بنک میں رکھ دیتا اور سالانہ منافع لیتا۔ ’’

‘‘ہاں….جائیداد، اچھا خیال ہے۔ ’’بیگم نے ہاتھ اپنی گود میں رکھ کر صوفہ پر بیٹھتے ہوئے کہا۔

‘‘ڈیفنس، گلشن یا سی سائیڈ کسی اچھے علاقے میں کہیں….سب سے پہلی بات ہمیں بنگلہ یا فارم ہاؤس نہیں چاہیے۔ بلکہ آمدنی میں اضافہ کا سوچناچاہیے۔’’

اس طرح کے خیالات ان کے دماغ پر چھانے لگے۔ ہر ایک پہلے سے زیادہ دلفریب اور شاعرانہ۔

‘‘ہاں ،جائیداد خریدنا اچھا رہے گا۔’’ بیگم کلثوم نے کہا۔ وہ بھی خواب دیکھ رہی تھی۔ ان کے چہرے سے عیاں تھا کہ وہ اپنے خیالات سے خوش ہے۔
ملک کمال صاحب نے خزاں کی بارشوں کا تصور کیا۔ سرد شاموں کا اور گرمیوں کی چھٹیوں کا۔

کمال صاحب رکے اور بیوی کو دیکھنے لگے۔ ‘‘جانتی ہو گرمیوں اور برسات کے موسم میں شمالی علاقہ جات یا بیرونِ ملک گھومنا ہی بہتر رہے گا۔’’

انہوں نے دوبارہ سوچنا شروع کردیا کہ ایسے موسم میں شمالی علاقہ جات یا ملک سے باہر جانا، مری، گلگت، سوات یا لندن، پیرس کتنا اچھا لگے گا۔
‘‘میں بھی یقیناً باہر جاؤں گی۔ ’’ بیگم کلثوم بھی چہک کر بولیں، ‘‘لیکن ٹکٹ کا نمبر تو دوبارہ کنفرم کر لو۔ ’’

‘‘صبر، صبر۔’’

وہ پھر کمرے میں چکر لگانے لگے، اور سوچنے لگے، اگر ان کی بیوی واقعی باہر ملک گئی تو کیا ہو گا؟

اکیلے سفر کرنا زیادہ بہتر ہے۔ یا پھر ایسی عورت کے ساتھ جو لاپروا سی ہو، حال میں زندہ رہے نہ کہ ایسی جو سارے سفر کے دوران بچوں کے بارے میں بولتی رہے۔ ہر دھیلے کے خرچنے پر آہیں بھرے۔
کمال صاحب نے بیوی پر نگاہ دوڑاتے ہوئے سوچا۔

‘‘لاٹری ٹکٹ اس کا ہے، لیکن اس کے بیرون ملک جانے کا فائدہ۔ اس نے باہر کیا کرنا ہے۔ وہ ہوٹل میں بند ہو جائے گی۔ مجھے بھی اپنی نظروں سے اوجھل نہیں ہونے دے گی۔’’

زندگی میں پہلی بار انہوں نے سوچا کہ اب بیوی کی عمر ڈھل رہی ہے۔ وہ عام سی دکھائی دیتی ہے۔ کھانے پکانے کی بو سے بھری رہتی ہے۔ جب کہ وہ خود ابھی تک جوان تروتازہ اور صحت مند ہیں۔ دوبارہ شادی کر سکتے ہیں۔

‘‘بے شک یہ بیوقوفانہ سوچ ہے پر وہ ملک سے باہر جائے کیوں؟ اس نے کرنا کیا ہے؟ وہ ضرور میرے رستے میں رکاوٹ رہے گی۔ میں اس کا محتاج رہوں گا۔ مجھے معلوم ہے جونہی رقم ملے گی وہ عام عورتوں کی طرح رقم کو تالے لگا کر رکھے گی۔ اپنے رشتہ داروں پر خرچ کرے گی اور مجھے ہمیشہ رقم کے لئے ترسائے گی۔’’

کمال صاحب نے اپنی بیوی کے رشتہ داروں کے بارے میں سوچا۔ کمال صاحب نے اپنے رشتہ داروں اور ان کے چہروں کو یاد کیا۔ انہیں اپنی بیوی کا چہرہ بھی قابل نفرت لگا۔ ان کے دل و دماغ غصے سے بھر گئے۔ انہوں نے کینے بھرے دل سے سوچا۔

اسے رقم کی کچھ سوجھ بوجھ نہیں پھر کنجوس بھی ہے۔ اگر وہ جیت گئی تو مجھے سو سو روپے پر ٹرخاتی رہے گی۔ اور باقی کہیں تالا لگا کر بند کردے گی۔

انہوں نے بیوی کی طرف دیکھا مسکراہٹ کے ساتھ نہیں بلکہ نفرت سے۔ بیوی نے بھی انہیں نفرت اور غصے سے دیکھا، اس کے اپنے خیالی پلاؤ اور پروگرام تھے۔

‘‘سیریز نمبر 94990 ٹکٹ نمبر چھبیس 26 …. ارے نہیں یہاں تو چھیالیس 46 ہے۔’’

فوراً نفرت اور امید دونوں غائب ہو گئے۔ کمال صاحب نے غصہ سے اخبار کو صفحہ کو پرزہ پرزہ کر ڈالا۔

اب دونوں میاں بیوی کو اپنے کمرے تاریک اور چھوٹے لگنے لگے اور شام کا جو کھانا کھایا تھا وہ ان کے معدے پر بوجھ ڈالنے لگا۔ شام لمبی اور تھکا دینے والی محسوس ہونے لگی۔

‘‘لعنت ہے،’’ کمال صاحب بدمزاجی اور چڑچڑاہٹ سے بولے۔ ‘‘جہاں قدم رکھو ہر قدم کے نیچے کاغذ کے پرزے اور کوڑے کے زرّے آتے ہیں، کمروں کو کبھی صاف نہیں کیا جاتا۔ بندہ گھر سے باہر جانے پر مجبور ہو جاتا ہے۔ ’’ یہ کہتے ہی وہ غصہ سے گھر سے باہر نکل گئے۔

(روسی ادیب انتون چیخوف کی کہانی کا اردو ترجمہ جس میں اچانک لاٹری نکلنے کی خبر پر شوہر اور بیوی کی نفسیات دکھائی گئی ہے، مترجم نے اردو قارئین کی دل چسپی کے لیے کرداروں کو مقامی نام دے دیے ہیں)

Comments

- Advertisement -