تازہ ترین

کے4 منصوبے سے بھی ترستے کراچی کو پانی نہیں مل سکے گا

پانی کو ترستے کراچی کے شہریوں کو کے4 منصوبے...

ایرانی صدر ابراہیم رئیسی کی کراچی آمد، مزار قائد پر حاضری

کراچی: پاکستان کے تین روزہ سرکاری دورے پر موجود...

ایرانی صدر کی مزار اقبال پر حاضری، پھول چڑھائے اور فاتحہ خوانی کی

لاہور: ایران کے صدر ابراہیم رئیسی کی لاہور آمد...

پاک ایران سرحد پر باہمی رابطے مضبوط کرنے کی ضرورت ہے، آرمی چیف

راولپنڈی: آرمی چیف جنرل عاصم منیر کا کہنا ہے...

جادو کا پتھر….

بہت عرصہ پہلے کی بات ہے، کسی گاؤں میں ایک عورت رہتی تھی جس کا ایک بیٹا تھا۔ ایک دن اس نے اپنے بیٹے کو کچھ پیسے دے کر اس سے کہا: "بیٹے! ذرا جا کر بازار سے روٹی لے آؤ۔” لڑکا پیسے لے کر بازار جا رہا تھا کہ ایک چوراہے پر اس نے کچھ بچّوں کو بلّی کے ایک مریل سے بچّے کو ستاتے ہوئے دیکھا۔

اسے رحم آ گیا۔ اور اس نے بچّوں سے پوچھا: "اس بلّی کے بچّے کو بیچو گے؟”

"ہاں بیچیں گے۔” بچوں نے جواب دیا۔ "کیا لو گے؟” لڑکے نے پوچھا۔

"جو جی چاہے دے دو۔” بچوں نے کہا۔ لڑکے کے پاس جتنے پیسے تھے سب دے کر اس نے بلّی کے بچّے کو لے لیا اور اس کو گود میں اٹھائے واپس گھر آیا۔

ماں نے پوچھا: "لے آئے روٹی؟”

"روٹی تو نہیں لایا۔ بلّی کا بچّہ لایا ہوں۔” لڑکے نے جواب دیا۔ "ارے کیا کہہ رہے ہو، بیٹے! یہ تم نے کیا کیا؟” ماں نے حیران اور اداس ہو کر کہا۔

لڑکے نے سارا حال اپنی ماں کو سنانے کے بعد کہا: "ماں! کوئی بات نہیں۔ ایک دن روٹی کھائے بغیر ہی رہ لیں گے۔” دوسرے دن ماں نے لڑکے کو پھر کچھ پیسے دے کر قصائی کی دکان پر بھیجا۔ راستے میں سڑک پر لڑکے نے دیکھا کہ کچھ لڑکے ایک پلّے کو پتھروں سے مار رہے ہیں۔ لڑکے کو اس پلّے پر رحم آ گیا اور اس نے لڑکوں سے پوچھا: "اے لڑکو! اس پلّے کو بیچو گے؟”

"ہاں بیچیں گے۔” لڑکوں نے جواب دیا۔ لڑکے نے اپنے ہاتھ کے سارے پیسے ان کو دے دیے اور پلّے کو لے کر گھر واپس آ گیا۔

ماں نے پوچھا: "لے آئے گوشت؟”

لڑکے نے کہا: "ماں! آپ ناراض نہ ہوں۔ آپ نے جو پیسے دیے تھے، ان کو دے کر میں یہ پلّا لایا ہوں۔”

"ارے بیٹے!” ماں نے اداس ہو کر کہا۔ "ہم ٹھہرے غریب لوگ۔ میں نے جانے کتنی مشکلوں سے وہ پیسے کمائے تھے۔ تم ان سے پلّا خرید لائے۔ بھلا یہ ہمارے کس کام کا؟ اور پھر اس کو کھلانے کے لیے ہمارے پاس کچھ ہے بھی تو نہیں۔”

لڑکے نے جواب دیا: "ماں کوئی بات نہیں۔ ہم ایک دن گوشت کے بغیر جی لیں گے۔”

تیسرے دن پھر ماں نے اپنے بیٹے کو کچھ پیسے دیے اور اسے تیل لانے کے لیے بازار بھیجا۔ وہ سڑک پر چلا جا رہا تھا کہ اچانک اس نے دیکھا کہ کچھ لڑکے چوہے کے ایک بچّے کو جو چوہے دان میں پھنس گیا تھا، ستا رہے تھے۔ اس کو چوہے کے بچّے پر رحم آ گیا۔ اس نے اپنے سارے پیسے دے کر اس کو لے لیا اور لیے ہوئے گھر واپس آیا۔

ماں نے پوچھا: بیٹے! تیل لے آئے؟” تو اس نے بتایا کہ کس طرح اسے تیل کے بجائے چوہے کے بچّے کو لینا پڑا۔ ماں بیٹے سے بہت پیار کرتی تھی۔ اس لیے اس بار بھی اس نے بیٹے کو برا بھلا نہ کہا۔ بس ایک ٹھنڈی سانس لے کر رہ گئی۔

بہت دن گزر گئے۔ لڑکا جوان ہو گیا۔ پلّا کتّا بن گیا، بلّی کا بچہ بڑا ہو کر بلّی بن گیا اور چوہے کا بچّہ بھی ایک اچھا خاصا چوہا بن گیا۔

ایک دن نوجوان نے دریا میں مچھلی پکڑ لی۔ اس نے مچھلی کو کاٹا اور اس کی آنتیں نکال کر کتّے کے آگے پھینک دیں۔ کتّا آنتوں کو کھانے لگا تو اچانک ان میں سے ایک چھوٹا سا پتّھر مل گیا جو سورج کی مانند چمک رہا تھا۔

نوجوان نے اس پتّھر کو دیکھا تو خوشی سے اچھلنے کودنے لگا۔ کیوں کہ وہ ایک جادو کا پتھر تھا جس کے متعلق نوجوان نے لوگوں سے سن رکھا تھا۔ اس نے پتّھر کو اٹھا کر اپنی ہتھیلی پر رکھا: "اے جادو کے پتھر! مجھے کھانا کھلا!”

یہ کہہ کر اس نے مڑ کر دیکھا تو حیرت سے اس کا منہ کھلا کا کھلا رہ گیا۔ پلک جھپکتے میں اس کے سامنے ایک بیش قیمت دستر خوان پر ایسے انوکھے اور لذیذ کھانے چنے ہوئے تھے جن کو اس نے کبھی خواب میں بھی نہیں دیکھا تھا۔ اس نے پیٹ بھر کر کھانا کھا لیا۔ پھر وہ دوڑ کر گھر آیا اور وہ جادو کا پتھر اپنی ماں کو دکھایا۔ ماں بہت خوش ہوئی۔ اسی دن سے ماں اور بیٹا دونوں بڑے چین اور آرام سے زندگی بسر کرنے لگے۔

ایک دن نوجوان شہر گیا۔ وہاں گھوم پھر رہا تھا کہ اچانک اسے ایک نہایت حسین جوان لڑکی نظر آئی۔ وہ لڑکی نوجوان کو اتنی زیادہ پسند آئی کہ اس نے اس سے شادی کرنے کا ارادہ کر لیا۔ گھر لوٹ کر اس نے اپنا یہ ارادہ ماں کو بتایا۔

"واہ ! تم بھی کیا باتیں کرتے ہو!” ماں نے حیرت سے کہا۔ "تم یہ بھی نہیں جانتے کہ وہ لڑکی خود بادشاہ سلامت کی بیٹی ہے۔ نہ بابا! میں پیغام لے کر بادشاہ کے پاس کبھی نہیں جاؤں گی۔”

لیکن نوجوان اصرار کرتا رہا اور آخرکار ماں مجبوراً راضی ہو گئی۔ اس نے کہا: "اچھی بات ہے۔ کہتے ہو تو چلی جاؤں گی، لیکن اتنا یاد رکھنا کہ بادشاہ کے محل سے آج تک کبھی کسی کو سکھ نہیں ملا۔”

رات کے وقت ماں شاہی محل تک پہنچ گئی اور محل کے دروازے کے سامنے کی سڑک پر جھاڑو دے کر اس کی صفائی کر دی۔

صبح کو بادشاہ محل سے باہر نکلا تو یہ دیکھ کر بڑا حیران ہوا کہ دروازے کے سامنے کی ساری زمیں صاف ستھری ہو گئی ہے۔ اگلے دن صبح پھر اس نے دیکھا تو یہی حال تھا۔ اس نے زیادہ تعجّب ہوا اور اس نے رات کو دروازے کے سامنے پہرے دار کھڑے کر دیے۔

تیسرے دن صبح سویرے پہرے دار ایک عورت کو پکڑ کر بادشاہ کے پاس لے آئے۔ بادشاہ نے عورت سے پوچھا: "بتاؤ تم روز رات کو میرے محل کے دروازے کے سامنے جھاڑو کیوں دیتی ہو؟”

عورت نے کہا: "میں ایک غریب بیوہ ہوں۔ میرا ایک بیٹا ہے۔ میں آپ کی بیٹی سے اس کی شادی کی خواہش لے کر آئی تھی، لیکن آپ کے پاس یوں چلے آنے کی مجھے جرات نہیں ہوئی۔ اور پھر آپ کے پہرے دار بھی تو آنے نہ دیتے۔”

کسی غریب عورت کی یہ گستاخی بھلا بادشاہ کیسے برداشت کرتا۔ اس نے غصّے میں آ کر حکم دیا کہ عورت کو قتل کر دیا جائے، لیکن اس کے دائیں والے وزیر نے کہا: "بادشاہ عالم! اس بیچاری عورت کو قتل کروانے کی کیا ضرورت ہے۔ آپ اس کو کوئی ایسا کام بتائیے جس کو پورا کرنا اس کے بس کی بات نہ ہو۔ بس پھر یہ خود ہی محل میں آنا بند کر دے گی۔”

وزیر کی بات بادشاہ کو پسند آئی اور اس نے عورت سے کہا: "جاؤ جا کر اپنے بیٹے سے کہنا کہ وہ میری بیٹی سے شادی کے لیے چالیس اونٹوں پر سونا لاد کر لائے۔”

"ہم بیچارے اتنا سونا کہاں سے لائیں گے؟” عورت نے اداس ہو کر سوچا اور محل سے نکل کر اپنے گھر کی راہ لی۔ گھر لوٹ کر اس نے بادشاہ کی شرط اپنے بیٹے کو بتائی تو اس نے ماں سے کہا: "امی جان! آپ فکر نہ کیجیے۔”

اس نے جادو کے پتھر کو اپنی ہتھیلی پر رکھ کر اس سے کچھ کہا۔ بس پھر کیا تھا، صبح ہوتے ہیں غریب بیوہ کی جھونپڑی کے سامنے سونے سے لدے ہوئے چالیس اونٹ کہیں سے آ کر کھڑے ہو گئے۔

نوجوان نے ماں سے کہا: "امی جان! آپ ان چالیس اونٹوں کو بادشاہ کے پاس لے جائیں۔” ماں کو بڑا تعجب ہوا، لیکن وہ کچھ کہے بغیر ان چالیس اونٹوں کو ہانکتی ہوئی بادشاہ کے پاس لے گئی۔

بادشاہ کو بھی بہت تعجّب ہوا، لیکن اس نے فوراً ہی ایک اور حکم صادر کر دیا۔ اس نے عورت سے کہا: "اپنے بیٹے سے جا کر کہنا کہ وہ اپنی دلہن کے لیے ایک محل بنوائے جو سارے کا سارا خالص سونے کا ہو۔ تب ہی شادی بیاہ کی بات ہو سکتی ہے۔”

ماں اور زیادہ اداس ہو گئی اور گھر جا کر بادشاہ کی نئی فرمائش اپنے بیٹے کو سنائی۔ نوجوان نے ماں کی باتیں چپ چاپ سن لیں اور پھر اس سے کہا: "امی جان! آپ فکر نہ کیجیے۔ خالص سونے کا محل بھی بن جائے گا۔”

صبح سویرے دریا کے کنارے ایک عالی شان محل کھڑا ہوگیا جو سارے کا سارا خالص سونے کا تھا۔ ایسا محل اس وقت تک کسی نے نہیں دیکھا تھا۔

ماں نے بادشاہ کے پاس جا کر کہا: "بادشاہ عالم لیجیے محل تیار ہے۔ ذرا باہر چل کر اس کو دیکھیے تو۔”

بادشاہ اپنے وزیروں کے ساتھ باہر آیا اور محل دیکھ کر ہکا بکا رہ گیا۔ اب تو اس کو ٹال مٹول کرنے کی کوئی صورت نظر نہ آئی اور اس نے غریب نوجوان سے اپنی بیٹی کی شادی کر دی۔

بادشاہ کے محل میں ایک چڑیل رہتی تھی۔ اس نے راز معلوم کرنے کا عہد کیا کہ ایک غریب نے راتوں رات ایسا عالی شان محل کیسے بنوا لیا، وہ بھی سونے کا۔ یہ عہد کر کے وہ مزاج پرسی کے بہانے شہزادی کے پاس آئی اور اس کو اس بات پر تیار کر لیا کہ وہ اپنے شوہر سے کسی طرح یہ راز معلوم کرے۔ چناں چہ اپنی بیوی کے اصرار پر نوجوان نے بتایا!

"میرے پاس جادو کا ایک پتھر ہے۔ اس کی مدد سے میں جو کچھ چاہوں حاصل کر سکتا ہوں۔”
"تم اس جادو کے پتھر کو کہاں رکھتے ہو؟” بیوی نے پوچھا۔
"میں اس کو اپنے منھ میں زبان کے نیچے رکھتا ہوں۔” نوجوان نے جواب دیا۔

اگلے ہی دن شہزادی نے یہ سب باتیں چڑیل کو بتا دیں۔ اس روز رات کو نوجوان گہری نیند سو گیا تو چڑیل نے آ کر آہستہ سے اس کے منھ سے جادو کا پتھر نکال لیا اور فوراً اس کو حکم دیا۔ "اے جادو کے پتھر! سونے کے محل کو شہزادی کے ساتھ ہی بادشاہ کے باغ میں منتقل کر دو اور غریب نوجوان پہلے جہاں تھا اسے وہی پہنچا دو۔”

ایک ہی لمحہ بعد سونے کا محل بادشاہ کے باغ میں کھڑا تھا۔ نوجوان نے آنکھیں کھولیں تو اس نے دیکھا کہ نہ محل ہے، نہ شہزادی اور وہ خود اپنی بوسیدہ جھونپڑی کے اندر پڑا ہوا ہے۔ پاس ہی اس کی ماں بیٹھی رو رہی ہے اور ایک کونے میں کتّا، بلّی اور چوہا اس کی طرف دیکھ رہے ہیں۔

"ہائے میری بدقسمتی!” نوجوان مایوس ہو کر کہہ اٹھا۔ "جادو کا پتھر گم ہو گیا ہے۔ اب میں کیا کروں؟” یہ کہہ کر وہ پھوٹ پھوٹ کر رونے لگا۔ کتّے، بلّی اور چوہے کو نوجوان پر رحم آ گیا۔

ان میں سے ہر ایک اپنے دل میں سوچنے لگا کہ اب آخر کیا کیا جائے، وہ سوچ ہی رہے تھے کہ اچانک کتّا بھونک اٹھا، بلی میاؤں میاؤں کر اٹھی، چوہا چیں چیں کرنے لگا۔ وہ تینوں دوڑتے ہوئے جھونپڑی سے باہر نکلے اور نظروں سے اوجھل ہو گئے۔

وہ تینوں تمام دن برابر دوڑتے رہے اور شام ہوتے ہوتے بادشاہ کے باغ تک پہنچے۔ انھوں نے نظریں اٹھا کر دیکھا تو دیوار کے اس طرف نوجوان کا سنہرا محل چمک رہا تھا۔ "اب ہم کو کسی طرح باغ کے اندر داخل ہونا چاہیے۔” کتّے، بلّی اور چوہے تینوں نے آپس میں طے کیا۔

لیکن باغ کی دیواریں اتنی اونچی تھیں کہ ان کو پھاند کر اندر جانا ناممکن تھا۔ سب دروازوں پر اندر سے مضبوط تالے لگے تھے۔

تینوں دیوار میں کوئی سوراخ تلاش کرنے لگے۔ سوراخ نہ ملا تو وہ تینوں مل کر دیوار کے نیچے زمیں میں ایک سوراخ بنانے لگے۔ سب سے پہلے چوہے نے اپنے پنجے کام میں لگا لیے۔ پھر بلّی، اور آخر میں کتّا اس کی جگہ کام میں لگ گیا۔ تھوڑی ہی دیر میں سرنگ تیار ہو گئی۔

پہلے چوہا سوراخ سے ہو کر اندر گیا۔ پھر بلّی بھی اندر چلی گئی۔ کتّا باہر پہرہ دینے لگا۔

بلّی اور چوہا دونوں سارے محل میں دوڑتے پھرے اور بالآخر اس کمرے میں داخل ہو گئے جہاں شہزادی سوئی ہوئی تھی اور پاس ہی چڑیل پڑی سو رہی تھی، جس نے اپنے ہونٹ زور سے بھینچ رکھے تھے۔ عقل مند چوہا فوراً سمجھ گیا کہ جادو کے پتھر کو اس نے اپنے منھ میں زبان تلے دبا رکھا ہے۔

چوہا دبے پاؤں جا کر چڑیل کی چھاتی پر چڑھ گیا اور اپنی دُم کی نوک سے اس کی ناک میں گدگدی کرنے لگا۔ چڑیل نے اپنا منھ کھول کر ایک چھینک ماری اور جادو کا پتھر اچھل کر فرش پر گر پڑا۔ بلّی نے فوراً اس کو منھ میں اٹھا لیا اور جب تک چڑیل ہوش سنبھالتی بلّی اور چوہا دونوں سر پر پاؤں رکھ کر بھاگتے ہوئے سوراخ کے راستے باہر سڑک پر آ گئے جہاں کتّا ان کا انتظار کر رہا تھا، کتّے نے فوراً جادو کا پتھر بلّی سے لے کر اپنے منھ میں دبا لیا اور تینوں آگے دوڑ پڑے۔

ادھر محل میں کھلبلی مچ گئی۔ سب "پکڑو! پکڑو!” کر کے چیخنے لگے۔ چور کی تلاش ہونے لگی، لیکن انھیں یہ کیا معلوم تھا کہ جادو کا پتّھر کسی کتّے کے منھ میں پڑا ہوا ہے۔

کتا، بلّی اور چوہا تینوں دوڑتے ہوئے تھوڑی دیر میں دریا کے کنارے پہنچے اور آپس میں اس بات پر بحث کرنے لگے کہ جادو کے پتّھر کو اس پار کون لے جائے؟

بلّی کہتی تھی: "پتھر کو اس پار میں لے جاؤں گی۔”

کتا کہتا تھا: "نہیں، تمھیں تو تیرنا بھی نہیں آتا، کہیں اس کو لیے ڈوب ہی نہ جاؤ۔

چوہے کی بھی یہی خواہش تھی کہ جادو کے پتّھر کو اُس پار میں لے جاؤں۔ تینوں بہت دیر تک بحث کرتے رہے۔ کتّا اپنی بات پر اڑا رہا اور پتّھر اسی کے پاس رہ گیا۔ تینوں تیرتے ہوئے دریا پار کرنے لگے۔ اچانک کتّے نے پانی میں اپنا عکس دیکھ لیا اور کوئی دوسرا کتّا خیال کر کے زور سے جو بھونکا تو جادو کا پتھر اس کے منھ سے نکل کر پانی میں گر گیا۔ اسی وقت اچانک کہیں سے ایک بڑی سی مچھلی نکلی اور وہ پتھر کو نگل گئی۔

"میں نے کہا تھا نا کہ پتھر کو تم ہر گز نہ لے جانا۔” بلّی نے مایوس ہو کر کتّے سے کہا۔ اب وہ تینوں پریشان تھے کہ کیا کیا جائے۔ اپنے مالک کے پاس خالی ہاتھ جانا نہیں چاہتے تھے۔ نزدیک میں ماہی گیروں کی ایک بستی تھی۔ وہ تینوں حیران و پریشان چلتے ہوئے اس بستی میں گئے۔ تینوں کو بہت بھوک لگی ہوئی تھی۔

خوش قسمتی سے ایک مچھیرے نے ایک بڑی مچھلی پکڑ لی تھی۔ اس نے مچھلی کو کاٹ کر اس کی آنتیں پھینک دیں۔ کتا بلّی اور چوہا تینوں آنتوں کو کھانے لگے۔

اچانک بلّی خوشی سے میاؤں کر اٹھی۔ معلوم ہوا کہ مچھلی کی آنتوں میں اس کو اچانک کوئی چمکیلا پتّھر مل گیا ہے۔ تینوں نے اس کو ذرا غور سے دیکھا تو پتا چلا کہ انھیں کا جادو کا پتھر ہے، تینوں خوشی سے اچھلنے لگے۔

بلّی نے پتھر کو اپنے منھ میں لے لیا اور تینوں اپنے گھر کی طرف دوڑ پڑے۔ گھر پہنچتے ہی بلّی نے جادو کے پتھر کو نوجوان کے گھٹنوں پر رکھ دیا۔ نوجوان اس کو دیکھ کر خوشی سے پھولا نہ سمایا اور اس نے کتّے، بلّی اور چوہے تینوں سے کہا:

"تم لوگوں کا احسان میں جیتے جی نہیں بھولوں گا۔”

"اور ہم جیتے جی تمھاری خدمت کرنے کو تیار ہیں، کیوں کہ کبھی تم ہی نے ہماری جانیں بچائی تھیں۔” کتّے، بلّی اور چوہے نے ایک آواز میں اس کو جواب دیا۔

نوجوان نے جوش میں آ کر کہا: "ابھی میں پتّھر کو حکم دیتا ہوں، وہ سونے کا محل پھر سے آ جائے گا۔”

ماں نے بیٹے کو روکتے ہوئے کہا: "رہنے دو بیٹے۔ سونے کے محل کی ہمیں کوئی ضرورت نہیں۔” تب نوجوان نے جادو کے پتھر سے کہا:

"محل کو مٹا دو۔” تو بس پھر کیا تھا، نہ محل رہا، نہ چڑیل رہی اور نہ ہی بادشاہ اور اس کی بیٹی رہی۔ ان سب کا نام و نشان مٹ گیا۔

لوگ کہتے ہیں کہ اس کے بعد نوجوان نے ایک مالی کی بیٹی سے شادی کر لی اور وہ لوگ بڑے سکھ اور آرام سے زندگی بسر کرنے لگے۔

(مصنّف: نامعلوم)

Comments

- Advertisement -