تازہ ترین

ایرانی صدر ابراہیم رئیسی کی کراچی آمد، مزار قائد پر حاضری

کراچی: پاکستان کے تین روزہ سرکاری دورے پر موجود...

ایرانی صدر کی مزار اقبال پر حاضری، پھول چڑھائے اور فاتحہ خوانی کی

لاہور: ایران کے صدر ابراہیم رئیسی کی لاہور آمد...

پاک ایران سرحد پر باہمی رابطے مضبوط کرنے کی ضرورت ہے، آرمی چیف

راولپنڈی: آرمی چیف جنرل عاصم منیر کا کہنا ہے...

پی ٹی آئی دورِحکومت کی کابینہ ارکان کے نام ای سی ایل سے خارج

وفاقی حکومت نے پی ٹی آئی دورِحکومت کی وفاقی...

دریائے میلانگ جہاں روزانہ دو یا تین لوگ زندگی ہار رہے تھے!

کئی سال تک جاوا کے جنگلوں میں گھومنے کے بعد جب میں اپنے وفادار ملازم ہاشم کی معیت میں سماٹرا کی طرف روانہ ہوا، نہ جانے کیوں مجھے اپنے دل میں ایک عجیب اضطراب محسوس ہونے لگا۔

سماٹرا پہنچ کر مجھے پیلمبنگ کے ضلع میں تعینات کیا گیا۔ یہ علاقہ دلدلی میدانوں اور گھنے جنگلوں سے پٹا پڑا تھا اور فضا میں ہر وقت ایک بو دار رطوبت سی چھائی رہتی تھی۔

میری عمل داری میں جو علاقہ آیا وہ دریائے میلانگ کے کنارے واقع تھا اور بیس مربع میل میں پھیلا ہوا تھا۔ میں جس روز یہاں پہنچا ، مزدوروں کی ٹولیاں مجھے دیکھنے کے لیے آئیں اور میں نے بڑے تعجب سے دیکھا کہ ان سب کے چہرے سوجے ہوئے اور سیاہ تھے اور چال ڈھال سے بھی وہ مضمحل نظر آتے تھے۔ معلوم ہوا کہ اس علاقے میں کالا بخار اور ملیریا کثرت سے پھیلا ہوا ہے اور یہاں ان مزدوروں کا علاج کرنے والا بھی کوئی بھی ڈاکٹر نہیں ہے۔

مصیبت یہ تھی کہ یہ لوگ اس قدر جاہل اور وحشی تھے کہ بیماریوں سے محفوظ رہنے کے جو قواعد انہیں بتائے جاتے ، ان پر بالکل عمل نہ کرتے تھے۔ حالاں کہ وہ دیکھتے تھے کہ وبائی امراض کی بدولت روزانہ تین چار آدمی موت کا شکار ہو رہے ہیں۔

سورج غروب ہوتے ہی دریا کی جانب سے ایک سیاہ بادل کی شکل میں بڑے بڑے مچھروں کی فوج اپنی خوراک کی تلاش میں نکلتی اور بدنصیب مزدوروں پر ٹوٹ پڑتی۔ ان کے پاس مچھروں کو بھگانے کا ایک ہی طریقہ تھا اور وہ یہ کہ آگ کے الاؤ جلا دیے جاتے تاکہ مچھر نزدیک نہ آئیں۔ مگر جونہی ان بے چاروں پر نیند کا غلبہ ہوتا اور آگ مدھم پڑ جاتی، وہ ہزاروں کی تعداد میں ایک آدمی سے چمٹ جاتے اور جب صبح ان کی آنکھ کھلتی تو ان کے چہرے اور جسم سوجے ہوئے نظر آتے۔

اگرچہ میں نے حکم دے رکھا تھا کہ پانی ابال کر پیا جائے لیکن مزدوروں کو اس کی پروا نہ تھی۔ وہ دریا اور گڑھوں میں سے پانی نکال کر بے تکلفی سے پی لیتے تھے حالاں کہ اس پانی کی سطح پر مچھروں کے انڈے تیر رہے ہوتے تھے۔

قصّہ مختصر میری جان توڑ کوششوں کے باوجود ملیریا کا مرض مزدوروں میں پھیلتا چلا گیا۔ میں بھلا کیا کرتا؟

(انتخاب:‌ آنائی کے آدم خور وحشی​، مقبول جہانگیر)​

Comments

- Advertisement -