تازہ ترین

حکومت کا ججز کے خط پر انکوائری کمیشن بنانے کا اعلان

اسلام آباد: وفاقی حکومت نے اسلام آباد ہائی کورٹ...

فوجی عدالتوں سے 15 سے 20 ملزمان کے رہا ہونے کا امکان

اسلام آباد : اٹارنی جنرل نے فوجی عدالتوں سے...

بلّی کے گلے میں گھنٹی!

برکت فلور مل چوہوں کی ایک قدیم اور وسیع ریاست تھی۔ گندم کی بوریوں کے ساتھ سوکھی روٹیوں کی بوریاں بھی موجود ہوتی تھیں تاکہ دونوں کو ملا کر آٹا تیار کیا جاسکے اور یوں حاجی برکت علی کی آمدنی اور لوگوں کے پیٹ کے امراض میں اضافہ ہوتا رہے۔

جب گندم اور سوکھی روٹیوں کی نئی کھیپ آتی تو چوہوں کی عید ہوجاتی۔ جب سیر ہو کر کھانے کے بعد ان کے پیٹ لٹک جاتے تو وہ نئے نئے خواب دیکھنے لگتے اور اس قسم کی تقریریں ہوتی۔

ایک بزرگ چوہا اپنی داڑھی کھجاتے ہوئے بولے۔

’’میرے عزیز ہم وطنو! آخر ہم کب تک چوہے دانوں اور بلّی کا شکار ہوتے رہیں گے۔ آخر کب وہ انقلاب آئے گا جب ہر گودام، ہر باورچی خانہ اور ہر پرچون کی دکان پر ہماری حکومت ہوگی؟‘‘

اگلا نوجوان چوہا دونوں ٹانگوں پر کھڑا ہو کر پہلوانوں کی طرح ران پر ہاتھ مارتے ہوئے۔

’’اس بار نامراد بلّی مجھے نظر آجائے پھر دیکھنا اس کا کیاحشر کرتا ہوں۔ ظلم سہنا بھی ظالم کی حمایت ہے۔‘‘

اگلا ضعیف چوہا کھانستے ہوئے۔ ’’ہم صدیوں سے بلّی کے مظالم سے پیچھا چھڑانے کی کوشش کررہے ہیں۔ میں ایک بار پھر کہتا ہوں اگر ہم بلّی کے گلے میں گھنٹی باندھنے میں کام یاب ہو جائیں تو ہم ہمیشہ کے لیے محفوظ ہوجائیں گے۔‘‘

بلّی کے گلے میں گھنٹی باندھنے کی تدبیر واقعی چوہوں کی قوم میں ایک عرصہ سے گردش کر رہی تھی۔ اس سلسلہ میں کچھ سنجیدہ اور انقلابی اقدامات بھی ہوئے لیکن کام یابی حاصل نہ ہوسکی۔ ایک بار چند نوجوان وہ گھنٹہ گھسیٹ لائے جو اسکول میں لکڑی کے ہتھوڑے سے بجایا جاتا ہے۔ نتیجہ یہ ہوا کہ وہ بھاری تھالی نما گھنٹہ سپاہیوں سے سنبھل نہ سکا اور دو تین اسی کے نیچے دب کر رحلت فرما گئے۔ دوسری بار کچھ کم فہم نوجوان کسی بیل کی گھنٹی گھسیٹ لائے۔ اس کے گھسیٹنے میں ایسا شور مچا کہ سوئی ہوئی بلیاں جاگ گئیں اور یوں تمام انقلابی بلّیوں کے ہتھے چڑھ گئے۔

جو جو ایک نہایت چالاک شریر اور نڈر چوہا تھا۔ والدین کے بار بار منع کرنے کے باوجود وہ چوہے دان میں لگا مکھن پنیر یا ڈبل روٹی کا ٹکڑا صاف نکال لاتا اور چوہے دان کا منہ حیرت سے کھلے کا کھلا رہ جاتا۔ جو جو بھی اپنے بزرگوں کے دعوے اور احمقانہ تقریریں سنتا رہتا۔ آخر اس نے بلّی کے گلے میں گھنٹی باندھنے کا بیڑا اٹھایا۔

اس نے اپنے تینوں دوستوں چوں چوں، گو گو اور چمکو کو اپنی اسکیم تفصیل سے سمجھائی اور تنبیہ کر دی کہ اس اسکیم کی اطلاع کسی بزرگ کو نہ دی جائے۔

چمکو کا گھر بوتل گلی کی مشہور دکان عطر ہاؤس میں تھا۔ چاروں دوست وہاں سے ایک خوب صورت سنہری عطر کی خالی شیشی لے کر آئے اور اسے صاف کر کے ایک مخمل کی ڈبیا میں رکھ دیا۔

اگلے دن چاروں دوست وہ شیشی لے کر پھول باغ پہنچے۔ ایک کیاری میں چنبیلی کے پھول آنکھیں موندے سورہے تھے۔ جو جو نے ان کی نازک گردن ہلا کر کہا۔

’’چنبیلی بہن! معاف کرنا ہم آپ کی نیند میں مخل ہوئے۔ آپ کی بہت مہربانی ہو اگر آپ اپنی خوشبو کے چند قطرے عنایت کردیں۔‘‘ چنبیلی نے مسکراتے ہوئے چند قطرے شیشی میں ٹپکا دیے۔

اس کے بعد چاروں دوست گلاب کے پاس گئے جو کھکھلا کر بلبل سے باتیں کر رہا تھا۔ چوں چوں نے گلاب کو سلام کر کے کہا۔

’’پھولوں کے راجہ اگر آپ ہمیں اپنی خوشبو کے چند قطرے دے دیں تو آپ کا بہت احسان ہوگا۔‘‘

’’ارے ہمارا تو کام ہی خوشبو بانٹنا ہے۔ بھر لو شیشی۔‘‘ گلاب نے ہنس کر کہا۔

یوں چاروں دوست بیلا، چمپا، رات کی رانی، دن کا راجہ کے پاس بھی گئے اور ان کی خوشبوؤں کے قطرے بھی حاصل کر لیے اور سنہری شیشی پتوں میں چھپا دی۔

بلّیوں نے اپنے اپنے علاقے بانٹ رکھے تھے اور برکت فلور مل پر مانو چمپا کی حکومت تھی۔ جو جو کو علم تھا کہ بائیس جنوری کو بی چمپا کی سالگرہ ہے اور اس دن فلور مل کی چھت پر علاقہ کی بلّیاں جمع ہو کر جشن منائیں گی اور یوں اس دن چاروں دوست اپنی زندگیاں داؤ پر لگا کر ایک چوہے گاڑی پر وہ خوشبوؤں سے بھری شیشی لاد کر اس وقت چھت پر پہنچے جب بلّیوں کا جشن عروج پر تھا۔

فرش پر ایک سفید دستر خوان پر گوشت کی بوٹیوں، نرم نرم ہڈیوں اور مچھلیوں کا ڈھیر تھا۔ مٹی کے کونڈوں میں دودھ بھرا ہوا تھا۔ چاروں دوست ایک کونے میں خاموشی سے بیٹھ گئے۔

کچھ دیر بعد جب بی چمپا کی نظر ان چاروں پر پڑی تو اس کی دُم اور کمر کے بال کھڑے ہوگئے اور اس نے چیخ کر کہا۔’’تم! تمہاری ہمت کیسے ہوئی ہماری محفل میں آنے کی۔‘‘

ایک اور مہمان بلّی ہونٹوں پر زبان پھیرتے ہوئے بولی۔’’چلو اچھا ہوا۔ اب کھانے کے مینو میں ان چاروں کا بھی اضافہ ہو جائے گا۔‘‘

جو جو نے ادب سے سر جھکا کر کہا۔

’چمپا بہن ہماری نیّت صاف ہے۔ ہم لوگ آپ کی سالگرہ پر ایسا نایاب تحفہ لے کر آئے ہیں کہ آپ کا دل باغ باغ ہوجائے گا۔‘‘ اور یہ کہتے ہوئے جب جو جو نے خوشبو کی شیشی کا ڈھکنا کھولا تو مست کر دینے والی خوشبو چاروں طرف پھیل گئی۔

مانو چمپا نے حیرت سے سنہری شیشی کی طرف دیکھا اور پھر چند قطرے اپنے ریشمی بالوں پر لگا لیے جس سے اس کے پورے جسم سے خوشبوؤں کی لپٹیں اٹھنے لگیں۔

چمپا نے خوش ہو کر کہا۔ ’’واقعی تم لوگوں کا تحفہ لاجواب ہے۔ اس لیے ہم اس خوشی میں آج تم لوگوں کو نوش فرمانے کا ارادہ ترک کرتے ہیں۔‘‘

اس کے بعد جب بھی بی چمپا خوشبو لگا کر نکلتیں تو چاروں طرف مہک پھیل جاتی اور تمام چوہے محفوظ مقامات پر پہنچ جاتے اور یوں جو جو کی عقل مندی سے آخر کار چوہے بلی کے گلے میں گھنٹی باندھنے کے بجائے انھیں خوشبو میں معطّر کرنے میں کام یاب ہوگئے اور ان کا بلّی سے ہوشیار رہنے کا خواب پورا ہوگیا۔

(مصنّف: وقار محسن)

Comments

- Advertisement -