تازہ ترین

کاروباری شخصیت کی وزیراعظم کو بانی پی ٹی آئی سے ہاتھ ملانے کی تجویز

کراچی: وزیراعظم شہباز شریف کو کاروباری شخصیت عارف حبیب...

وزیراعظم شہباز شریف کی مزار قائد پر حاضری

وزیراعظم شہباز شریف ایک روزہ دورے پر کراچی پہنچ...

ایران کے صدر ڈاکٹر ابراہیم رئیسی دورہ پاکستان مکمل کرکے واپس روانہ

کراچی: ایران کے صدر ڈاکٹر ابراہیم رئیسی دورہ پاکستان...

پاک ایران تجارتی معاہدے پر امریکا کا اہم بیان آگیا

واشنگٹن : نائب ترجمان امریکی محکمہ خارجہ کا کہنا...

ترانوے ویں قسط: پُر اسرار ہیروں والی گیند اور دہشت بھری دنیا

نوٹ: یہ طویل ناول انگریزی سے ماخوذ ہے، تاہم اس میں کردار، مکالموں اور واقعات میں قابل ذکر تبدیلی کی گئی ہے، یہ نہایت سنسنی خیز ، پُر تجسس، اور معلومات سے بھرپور ناول ہے، جو 12 کتابی حصوں پر مشتمل ہے، جسے پہلی بار اے آر وائی نیوز کے قارئین کے لیے پیش کیا جا رہا ہے۔

گزشتہ اقساط پڑھنے کے لیے اس لنک پر کلک کریں

جب تینوں کنارے کی طرف چل پڑے تو انھیں پیچھے جیکس کی بلند آواز سنائی دی، وہ کہہ رہا تھا کہ یہاں شارکس بھی ہیں اس لیے بچ کر رہنا۔ شارک مچھلی کنارے تک بھی آ جاتی ہے، اس لیے جب بھی پانی میں کٹار دیکھ لو تو فوراً دوڑ لگاؤ۔ یہ کہہ کر وہ ہنسنے لگا تھا، جب کہ جبران نے بے ساختہ اپنے قدموں کی طرف دیکھا اور کہا: ’’کیا اس نے شارک کی بات کی ہے؟‘‘ فیونا نے سنجیدگی سے اثبات میں سر ہلایا۔ تینوں نے ایک دوسرے کی طرف دیکھا اور پھر بغیر کچھ کہے کنارے کی طرف دوڑ لگا دی، پانی گرتے پڑتے وہ ریتیلے ساحل پر پہنچ کر رک گئے، اس بھاگم بھاگی میں تینوں خوب بھیگ گئے تھے۔

دانیال نے منھ بنا کر کہا: ’’مجھے تو یہ شخص بہت نا معقول لگا۔‘‘ تینوں آس پاس نگاہیں دوڑانے لگے، دانیال نے ایک طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا: ’’وہ تین چوٹیاں تمھارے خواب والی تو نہیں ہیں!‘‘

فیونا نے دیکھا اور مسکرا کر کہا کہ بالکل یہی ہیں، ہم درست مقام پر ہیں۔ ’’تو موتی کہاں ملے گا؟‘‘ جبران شرٹ اتار کر اس سے پانی نچوڑنے لگا اور پھر اپنی کمر پر اسے پھیلا دیا تاکہ دھوپ میں سوکھ جائے۔ فیونا بولی کہ اسے چند منٹ کے لیے کہیں ٹھہر کر سوچنا ہوگا۔ ایک جگہ خود رو گھاس دیکھ کر وہ بیٹھ گئی، جب کہ دانیال اور جبران سمندری خول ڈھونڈنے چلے گئے۔ فیونا نے آنکھیں بند کر لیں، اور چند منٹ بعد اس نے دانیال کی آواز پر آنکھیں کھول دیں۔ ’’کیا تم نے کچھ دیکھا؟‘‘ دانیال نے ایک خوب صورت سمندری خول اس کی طرف بڑھاتے ہوئے پوچھا۔ فیونا نے بتایا کہ انھیں مزید آگے جانا ہوگا، وہ جگہ جتنی زیادہ قریب ہوگی، اتنا زیادہ اس کے بارے میں خیال واضح ہوگا۔ فیونا نے دانیال کے ہاتھ سے خول لے کر کہا یہ بہت پیارا ہے۔ وہ گیلے جوتوں کے ساتھ ریت پر بڑی مشکل سے چل رہے تھے۔ جبران نے کہا: ’’علاقے کے اندر چلتے ہیں، وہاں درخت ہیں، سایہ ہے اور زمین بھی سخت دکھائی دے رہی ہے، وہاں چلنا آسان ہوگا۔‘‘

فیونا بولی: ’’اچھا خیال ہے، مجھے انگور کی بیلیں دکھائی دے رہی ہیں جو درختوں کی شاخوں سے لپٹی ہیں۔ اور وہ دیکھو، پتے کتنے بڑے ہیں، ہاتھی کے کان جتنے، اتنے بڑے پتے میں نے پہلے کبھی نہیں دیکھے۔‘‘

اچانک جبران چلایا: ’’یہ دیکھو زمین کی طرف، اف، اتنے حشرات ہیں یہاں، اس سے تو بہتر ریت پر چلنا ہے۔‘‘

دانیال اور فیونا نے نیچے دیکھا، فیونا نے لاپرواہی سے کہا: ’’بچھوؤں کے درمیان سے گزرنے کے بعد مجھے ان چھوٹے حشرات سے ڈر نہیں لگ رہا۔‘‘

’’نہیں، سارے چھوٹے نہیں ہیں۔‘‘ جبران نے کہا اور ایک باریک چھڑی اٹھا کر فیونا کو دکھانے لگا۔

’’ارے یہ تو بہت بڑے ہیں۔‘‘ دانیال حیران ہو گیا۔ ’’یہ ہے کیا، کیا یہ کاٹتے ہیں؟ میرے خیال میں جبران ٹھیک کہتا ہے، میں بھی ریت پر چلنے کو ترجیح دوں گا۔‘‘
فیونا نے کچھ دیر غور سے دیکھنے کے بعد کہا: ’’یہ گینڈوں کے بھنورے ہیں، میں نے ٹی وی پر ان کے بارے میں دیکھا تھا، یہ بڑے تو ہیں لیکن کاٹتے نہیں ہیں۔‘‘ یہ کہہ کر وہ چند لمحوں کے لیے ٹھہری اور پھر بولی: ’’ہمیں جنگل میں اس سے کہیں زیادہ تیز رفتاری کے ساتھ چلنا ہوگا۔‘‘

چلتے چلتے دانیال کی نظریں ایک سیاہ رنگ کے توتے پر پڑ گئیں، اس نے دونوں کو متوجہ کیا، تینوں کو بڑی حیرت ہوئی۔ دانیال نے کہا: ’’میں نے کبھی سیاہ رنگ کا توتا نہیں دیکھا، عموماً سرخ، سبز، نیلے، پیلے اور شوخ رنگوں کے دیکھے ہیں، مجھے لگتا ہے درخت پر کوئی اور چیز ہے۔‘‘

فیونا نے کہا کہ یہ سیاہ توتے نہیں، پھل کھانے والے چمگادڑ ہیں۔‘‘

عین اس لمحے درختوں سے یہ لٹکنے والی مخلوق بڑی تعداد میں اڑ کر آئی اور ان کے سروں پر منڈلانے لگی۔ جنگل ان کی چیخوں سے گونج اٹھا، تینوں نے گھبرا کر ساحل کی طرف دوڑ لگا دی۔ دانیال ہانپتے ہوئے بولا: ’’مجھے چمگادڑوں سے سخت چڑ ہے، مجھے یہ اور گینڈوں کے بھنورے ایک آنکھ نہیں بھائے۔‘‘

فیونا نے کہا: ’’ٹھیک ہے، ہمیں کچھ دور تک ریت ہی پر چلنا ہوگا، ہم قریب پہنچ گئے ہیں، وہ جو ابھری ہوئی چٹانیں نظر آ رہی ہیں، میرے خیال میں موتی وہیں کہیں ہے۔‘‘

(جاری ہے…)

Comments

- Advertisement -