تازہ ترین

چین پاکستان معاہدوں کے حوالے سے آئی ایم ایف کا اہم بیان

عالمی مالیاتی ادارے کا کہنا ہے کہ چین پاکستان...

جون تک پی آئی اے کی نجکاری کا عمل مکمل کرلیا جائے گا، وفاقی وزیر خزانہ

کراچی : وزیرخزانہ محمداورنگزیب کا کہنا ہے کہ پی...

حکومت کا ججز کے خط پر انکوائری کمیشن بنانے کا اعلان

اسلام آباد: وفاقی حکومت نے اسلام آباد ہائی کورٹ...

"نجو بھلا کیا نام ہوا؟”

اردو کے ممتاز ادیبوں، شعرا اور نام وَر اہلِ‌ قلم سے متعلق کتابوں میں مختلف واقعات، دل چسپ قصّے درج ہیں‌۔ ان شخصیات نے اپنی خودنوشت یا آپ بیتی میں بھی اپنی یادیں محفوظ کی ہیں اور اپنے ہم عصروں کی پُرلطف باتیں ہم تک پہنچائی ہیں۔

یہ ایک ایسا ہی واقعہ ہے سعادت حسن منٹو کی کتاب اندھیر نگری سے لیا گیا ہے۔

ایک دفعہ عبدالمجید سالک کسی کام کے سلسلے میں حکیم فقیر محمّد چشتی صاحب کے مطب پر گئے۔

وہاں ایک مشہور طوائف نجو بھی دوا لینے آئی ہوئی تھی۔ کِھلا ہوا چمپئی رنگ، سر پر ایک سفید ریشمی دوپٹہ جس کے کنارے چوڑا نقرئی لپہ لگا ہوا تھا۔

سالک جو پہنچے تو حکیم صاحب نے نجو سے کہا: "یہ تمہارے شہر کے بہت بڑے شاعر اور ادیب سالک صاحب ہیں۔ آداب بجا لاؤ۔”

وہ سَر و قد اُٹھ کھڑی ہوئی اور جھک کر آداب بجا لائی۔ پھر سالک سے کہا، "یہ لاہور کی مشہور طوائف نجو ہیں۔ آپ اُس کوچے سے نابلد سہی لیکن نام تو سنا ہو گا؟”

سالک بولے: "جی ہاں نام تو سنا ہے لیکن نجو بھلا کیا نام ہوا؟”

حکیم صاحب فرمانے لگے، "لوگ نجو نجو کہہ کے پکارتے ہیں۔ اِس کا پورا نام تو نجاتُ المومنین ہے۔”

Comments

- Advertisement -