تازہ ترین

کچے کے ڈاکوؤں کو اسلحہ فراہم کرنیوالے 3 پولیس افسران سمیت 7 گرفتار

کراچی : پولیس موبائل میں جدید اسلحہ سندھ اسمگل...

پاکستان کو آئی ایم ایف سے 6 ارب ڈالر قرض پروگرام کی توقع

وفاقی وزیر خزانہ محمد اورنگزیب نے کہا ہے کہ...

اسرائیل کا ایران پر فضائی حملہ

امریکی میڈیا کی جانب سے یہ دعویٰ سامنے آرہا...

کچھ آوازیں تو اب ہم سن ہی نہیں سکتے!

افسانے کا مستقبل تاریک ہے، اس لیے کہ دنیا میں درخت کم ہوتے چلے جا رہے ہیں اور آدمیوں کی بھیڑ بڑھتی چلی جا رہی ہے۔ ایسی دنیا میں جہاں آدمی ہی آدمی ہوں صحافت پیدا ہو سکتی ہے، شعر اور افسانہ پیدا نہیں ہو سکتے۔

صحافت اور خطابت خالص انسانی دنیا کے ذرائع اظہار ہیں۔ شعر اور افسانہ خالص انسانی ذریعۂ اظہار نہیں۔ انہوں نے انسان اور غیر انسان کے باہمی میل ملاپ سے جنم لیا ہے۔ افسانے نے اس زمانے میں جنم لیا تھا، جب اس دھرتی پر درخت بہت اور آدمی کم تھے۔ رات پڑتی تو الاؤ کے گرد مٹھی بھر آدمی، آگے اندھیرا ہی اندھیرا اور درخت ہی درخت۔ فطرت کی بنائی ہوئی چیز کا بدل فطرت کی بنائی ہوئی چیز ہی ہو سکتی ہے۔ جنگل نہیں ہے تو صحرا ہوا اور صحرا نہیں ہے تو اونچے پہاڑ ہوں، کسی پر شور سمندر کا ساحل ہو۔ گیان دھیان، تخیّل کی تربیت، تخلیقی عمل برگد کی چھاؤں میں بھی ہو سکتا ہے، پہاڑوں کی گپھاؤں میں بھی ہو سکتا ہے، صحرا کی وسعتوں میں بھی ہو سکتا ہے۔ مگر کارخانے کی دیوار کے سائے میں نہیں ہو سکتا اور فلک بوس عمارتیں فلک بوس پہاڑوں اور گھنے اونچے درختوں کا بدل نہیں بن سکتیں۔

فلک بوس عمارتوں، شور مچاتے کارخانوں، قطار اندر قطار کوارٹروں اور فلیٹوں سے اب مفر نہیں ہے۔ ارتگا جوزے نے آج سے چالیس برس پہلے انسانی بھیڑ کا جو نقشہ یورپ کے سیاق و سباق میں کھینچا تھا، اب وہ ہماری بستیوں میں بھی صنعتی عہد کی پرچھائیاں پڑنے کے ساتھ اُبھر رہا ہے۔ ٹریفک اتنا ہے کہ درخت کاٹ کاٹ کر سڑکیں پھیلائی جا رہی ہیں۔ بسیں آدمیوں سے بھری ہوتی ہیں، رکشاؤں اور ٹیکسیوں کے شور سے کان پڑی آواز سنائی نہیں دیتی۔ مگر سواری کا پھر بھی توڑا ہے۔ رہائش کا مسئلہ بھی اسی قدر سنگین ہے۔ مکان کم ہیں، مکین بہت ہیں۔ نئی آبادیاں بسائی جا رہی ہیں۔ جہاں کل جنگل تھے آج وہاں کوارٹروں اور فلیٹوں کا جنگل پھیلا ہوا ہے، اس کے باوجود مکان کا حصول ایک مسئلہ ہے۔ خالی مکان ماضی کا افسانہ ہیں، ایسے مکان جو برسوں خالی پڑے رہتے تھے حتیٰ کہ ان میں پڑے ہوئے تالوں پر زنگ جم جاتی تھی، اب کسی شہر میں نظر نہیں آتے۔ ایسے مکان پُر اسرار بن کر تخیل کی نشوو نما کرتے تھے اور قصہ کہانی کو جنم دیتے تھے۔ تخیل کی نشو و نما کچھ خالی پُر اسرار مکانوں کے ذمے تھی، کچھ گھنے پرانے درختوں کے ذمے، کچھ پرندوں اور دوسرے جانوروں کے ذمے تھی، یہ سب معاشرے کے فعال کردار تھے۔

انسان دوستی برحق مگر تلسی، کبیر اور نظیر کی انسان دوستی خالی خولی انسانی حوالے سے نہیں تھی۔ وہ انسان اور غیرانسان کے اس پراسرار رشتے کے حوالے سے تھی جو ان زمانوں میں پروان چڑھنے والے معاشروں کی بنیاد تھا۔ مگر اب ہم اپنی فلک بوس عمارتوں، شور مچاتے کارخانوں اور بھاری بھرکم مشینوں کے ساتھ ایک نئے عہدِ بربریت میں داخل ہو رہے ہیں۔ اس تہذیب نما بربریت کی بدولت تجربے کا منطقہ سکڑتا جا رہا ہے اور اطلاعات و معلومات کا جنگل پھیلتا جا رہا ہے۔ آدمی کا جنگل سے رشتہ ٹوٹ رہا ہے اور آدمی جنگلی بنتا جا رہا ہے۔ اب ’بیتال پچیسی، نہیں لکھی جا سکتی۔ کیوں؟ اس لیے کہ بیتال نے یہ کہا تھا کہ ”راہ اچھی باتوں کی چرچا میں کٹے تو اچھا ہے۔ سو اے راجا جو میں کتھا کہتا ہوں، اسے سن۔ جو تو رستے میں بولے گا تو میں الٹا پھر جاؤں گا۔“ مگر اب ہم بولنے بہت لگے ہیں۔ تقریریں، اخباری بیانات، مذاکرے، مباحثے اور ہماری راہیں بہت پُرشور ہیں۔ ان راہوں پر چلتے ہوئے انسان اور غیر انسان کے درمیان مکالمہ ممکن نہیں رہا۔

مسلسل شور کے بیچ ہماری سماعت میں فرق آ گیا ہے۔ کچھ آوازیں تو اب ہم سن ہی نہیں سکتے۔

(اردو کے ممتاز فکشن نگار انتظار حسین کے مضمون سے اقتباس)

Comments

- Advertisement -