تازہ ترین

حکومت کا ججز کے خط پر انکوائری کمیشن بنانے کا اعلان

اسلام آباد: وفاقی حکومت نے اسلام آباد ہائی کورٹ...

فوجی عدالتوں سے 15 سے 20 ملزمان کے رہا ہونے کا امکان

اسلام آباد : اٹارنی جنرل نے فوجی عدالتوں سے...

دو مُشت پَر….

ايک تھی چڑيا، ايک تھا چڑا۔

چڑيا لائی دال کا دانہ، چڑا لايا چاول کا دانہ۔ اس سے کچھڑی پکائی، دونوں نے پيٹ بھر کر کھائی۔ آپس ميں اتفاق ہو تو ايک ايک دانے کی کچھڑی بھی بہت ہوتی ہے۔

چڑا بيٹھا اونگھ رہا تھا کہ اس کے دل ميں وسوسہ آيا کہ چاول کا دانہ بڑا ہوتا ہے، دال کا چھوٹا ہوتا ہے۔ پس دوسرے روز کچھڑی پکی تو چڑے نے کہا اس میں چھپن حصّے مجھے دے، چواليس حصّے تو لے۔ اے باگھوان پسند کر يا ناپسند کر۔ حقائق سے آنکھ مت بند کر، چڑے نے اپنی چونچ ميں سے چند نکات بھی نکالے اور بی بی کے آگے ڈالے۔

بی بی حيران ہوئی بلکہ رو رو کر ہلکان ہوئی کہ اس کے ساتھ تو ميرا جنم کا ساتھ تھا ليکن کيا کر سکتی تھی۔

دوسرے دن پھر چڑيا دال کا دانہ لائی اور چڑا چاول کا دانہ لايا۔ دونوں نے الگ الگ ہنڈيا چڑھائی، کچھڑی پکائی، کيا ديکھتے ہیں کہ دو ہی دانے ہيں۔ چڑے نے چاول کا دانہ کھايا، چڑيا نے دال کا دانہ اٹھايا۔ چڑے کو خالی چاول سے پيچش ہوگئی۔ چڑيا کو خالی دال سے قبض ہو گئی۔ دونوں ايک حکيم کے پاس گئے جو ايک بِلّا تھا۔ اس نے دونوں کے سروں پر شفقت کا ہاتھ پھيرا اور پھيرتا ہی چلا گيا۔

ديکھا تو تھے دو مُشت پَر
(مٹھی بھر پَر، ایسا پرندہ جس کے جسم پر گوشت کم ہو، مجازاً حقیر شے)

يہ کہانی بہت پرانے زمانے کی ہے۔ آج کل تو چاول ايکسپورٹ ہو جاتا ہے اور دال مہنگی ہے۔ اتنی کہ وہ لڑکياں جو مولوی اسماعيل ميرٹھی کے زمانے ميں دال بگھارا کرتی تھيں۔ آج کل فقط شيخی بگھارتی ہيں۔

(طنز و مزاح از قلم ابن انشا)

Comments

- Advertisement -